278۔ تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ411۔412

278۔ تم
عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے

تم
عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے
پندار
کی سولی سے اُتر کیوں نہیں جاتے
سب
کہنے کی باتیں ہیں مری جان! وگرنہ
شرمندہ
ہو تو شرم سے مر کیوں نہیں جاتے
یہ
عرقِ خجالت میں شرابور مسافر
صحرائے
ندامت سے گزر کیوں نہیں جاتے
سچّے
ہیں ترے ہاتھ تو پھر تیرے قلم سے
چہروں
کے خدوخال سنور کیوں نہیں جاتے
برسات
کا موسم ہے نہ پگھلی ہے کہیں برف
یہ
آنکھ کے تالاب اُتر کیوں نہیں جاتے
کیوں
محوِ تماشا ہیں سرِ بامِ تحیّر
نظّارے
ترے رُخ پہ بکھر کیوں نہیں جاتے
گھر
سے تو نکل آئے ہو زنجیر پہن کر
اس
شور میں چپکے سے گزر کیوں نہیں جاتے
سپنے
جو ہمیں ملنے کو آئے تھے سرِ شب
گھر
لوٹ کے ہنگامِ سحر کیوں نہیں جاتے
امکان
کی سرحد پہ کھڑے سوچ رہے ہو
کیوں
ڈرتے ہو تا حدِّ نظر کیوں نہیں جاتے
مضطرؔ!
یہ گئے دور کے بیدار مسافر
اب
لوٹ کے آئے ہیں تو گھر کیوں نہیں جاتے
 چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں