124۔ بَغْتَۃً وہ اگر گیا ہو گا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
195۔196

124۔ بَغْتَۃً وہ اگر گیا ہو گا

بَغْتَۃً وہ
اگر گیا ہو گا
راکھ بن کر بکھر گیا ہو گا
اپنا انجام دیکھ کر اس کا
سب ملمّع اُتر گیا ہو گا
مٹ گئے ہوں گے عہد کے آثار
وہ ستمگر جدھر گیا ہو گا
دیکھ کر میری مسکراہٹ کو
اس کا چہرہ اُتر گیا ہو گا
اپنے انجام پر نظر کر کے
موت سے پہلے مر گیا ہو گا
اس نے دیکھا تو ہو گا آئینہ
لوٹ کر جب وہ گھر گیا ہو گا
مجھ کو خبروں سے مارنے والا
سرِ اخبار مر گیا ہو گا
زرِ آواز لُوٹنے کے بعد
دن دِہاڑے مُکر گیا ہو گا
چَین کی بھیک مانگنے کے لیے
جانے کس کس کے گھر گیا ہو گا
دن چڑھے آنکھ کھل گئی ہو گی
سارا نشّہ اُتر گیا ہو گا
اس کو دیکھے ہوئے سرِ اخبار
اک زمانہ گزر گیا ہو گا
لوگ جاتے ہیں اپنی مرضی سے
وہ برنگِ دِگر گیا ہو گا
جس کڑے دن کا ذکر کرتے ہو
وہ بھی آخر گزر گیا ہو گا
آؤ مقتل کی سیر کر آئیں
کچھ تو موسم نکھر گیا ہو گا
خشک پتّوں کی طرح بالآخر
وہ خلا میں بکھر گیا ہو گا
خونِ ناحق سے ہی سہی مضطرؔ!
اس کا دامن تو بھر گیا ہو گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں