317۔ زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ469

317۔ زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے

زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے
مسکرائے تو بن سنور سے گئے
گھر کے اندر بھی دشت تھے آباد
گھر میں آئے تو پھر نہ گھر سے گئے
ان کو سچ بولنے کی عادت تھی
آئنے آئنوں سے ڈر سے گئے
آہٹوں کے اسیر سنّاٹے
کبھی ٹھہرے، کبھی گزر سے گئے
آنسوؤں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا
یہ مسافر بھی اب سفر سے گئے
یاد کی محفلیں بھی خواب ہوئیں
خواب کے رنگ بھی بکھر سے گئے
دوست بھی جا چکے رِہا ہو کر
اور دشمن بھی جیسے مر سے گئے
اشک برسے تو چاہتوں کے چناب
لذّتِ تشنگی سے بھر سے گئے
ہم بھی کیا آئے محفلِ جاں میں
بے خبر آئے بے خبر سے گئے
تاب کب لا سکے اذیّت کی
آئینے ٹوٹ کر بکھر سے گئے
کُوئے الزام! تیری عمر دراز
تجھ سے نکلے تو شہر بھر سے گئے
رات جب بھیگنے لگی مضطرؔ!
چاند چہرے بھی کچھ نکھر سے گئے
٨جولائی،١٩٩٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں