350۔ بے نظر بھی ہوں،بے ادب بھی نہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ515

350۔ بے
نظر بھی ہوں،بے ادب بھی نہیں

بے نظر بھی ہوں،بے ادب بھی نہیں
دیکھ پاؤں اُسے، عجب بھی نہیں
اُس سے مل کر بھی اُس سے ملنے کی
پیاس ہے اور بے سبب بھی نہیں
چاند نکلا، اندھیرے بھاگ گئے
شب بھی ہو جیسے اور شب بھی نہیں
کھا رہا ہے قفس کو سنّاٹا
کوئی آواز زیرِ لب بھی نہیں
وقت کے بیکراں سمندر میں
شور بھی وہ نہیں، شغب بھی نہیں
موت کا منتظر بھی ہے لیکن
دل کا بیمار جاں بلب بھی نہیں
میرے اور تیرے درمیاں واعظ!
صلح جب بھی نہیں تھی، اب بھی نہیں
وہ بضد ہیں کہ کائنات کا رب
ان کا رب ہے، ہمارا رب بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا شوق ہے مضطرؔ!
تجھ سے ملنے کی کچھ طلب بھی نہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں