355۔ کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ520

355۔ کب
سے بیٹھے ہو بے یقینے سے

کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے
گھر مہکنے لگے پسینے سے
کوئی آیا نہ ہو مدینے سے
وہ تو داتا ہے دے گا ہر صورت
تم بھی مانگو کسی قرینے سے
آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جائیں گے
آنسوؤں کے یہ آبگینے سے
آنے والے! نہ اتنی دیر لگا
منتظر ہوں کئی مہینے سے
منتظر ہیں اسیر مدّت سے
آ بھی جا اب اُتر کے زینے سے
عہدِ غم میں یہ معجزہ بھی ہؤا
لوگ جی اُٹّھے اشک پینے سے
زہے قسمت مری، نصیب مرے
وہ مخاطب ہیں مجھ کمینے سے
ہم فقیروں کو کر دیا زندہ
اس نے مضطرؔ! لگا کے سینے سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں