352۔ اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ517

352۔ اک
حسیں پر جسم اور جاں وار کر

اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر
جیت لی تھی ہم نے بازی ہار کر
شاید آ جائیں وہ ملنے کے لیے
دار پر بیٹھے ہیں دھرنا مار کر
بول سکتا ہے تو بول اس حبس میں
کر سکے تو جرأتِ اظہار کر
جرم ہے گر اعترافِ عشق بھی
جرم کر اور بر سرِ دربار کر
کر کے دشمن کو تہِ دل سے معاف
پھر سے لَا
تَثْرِیْبَ
کی تکرار کر
پیار کے عادی نہ ہو جائیں کہیں
ہم حقیروں سے نہ اتنا پیار کر
مَیں بھی پیاسا ہوں کسی کی دید کا
میرے اندر بھی ہے اک تھر پار کر
کون ّسچا اور جھوٹا کون ہے
فیصلہ خود ہی، بتِ عیّار! کر
کچھ نہیں تو ہم فقیروں کے خلاف
کوئی سازش ہی پسِ دیوار کر
تاب لائے گا کہاں سے دید کی
حدِّ فاصل کو نہ مضطرؔ! پار کر
٤دسمبر،١٩٩٥ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں