376۔ آرزو کے اسیر شہزادو!

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ546

376۔ آرزو
کے اسیر شہزادو!

آرزو
کے اسیر شہزادو
!
مجھ
کو میرے وطن میں پہنچا دو
جس
کو کہتے ہو آدمِ خاکی
آگ
ہی آگ ہے پَری زادو
!
مَیں
بھی مجبور، تم بھی ہو مجبور
میرے
آباؤ! میری اولادو
!
کچھ
تو بولو کہ بے اثر کیوں ہو
شب
کے نالو! سحر کی فریادو
!
شیخ
و واعظ میں ٹھن گئی ہے آج
شہر
میں اس خبر کو پھیلا دو
راستے
کی بھی آبرو رہ جائے
میری
منزل قریب تر لا دو
نوچ
ڈالو نقاب پھولوں کے
رنگ
و بو کے صنم کدے ڈھا دو
کبھی
عقل و خرد کی محفل میں
دل
کی آواز کو بھی رستہ دو
کبھی
اجداد کی صدا بھی سنو
عہدِ
نو کی ذہین اولادو
!
نسلِ
آدم کا کچھ شمار نہیں
آدمی
کوئی ہوں گے ایک یا دو
مَیں
شہنشاہِ عشق ہوں مضطرؔ
!
مجھ
کو کانٹوں کا تاج پہنا دو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں