8۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چالیس شبانہ روز دُعاؤں کا ثمر

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ49۔57

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی چالیس شبانہ روز دُعاؤں کا ثمر

شرابِ محبت پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
نگاہوں سے پردے اٹھا ساقیا
سب احوال نظروں میں لا ساقیا
نگاہوں میں لا آج وہ واقعات
ہے وابستہ جن سے جہاں کی حیات
اٹھارہ کے اوپر چھیاسی تھے سال
کہ گویا ہؤا یوں شہہِ ذوالجلال
مبارک ہوتجھ کو اے فخر رُسل
کہ ملتا ہے تیری دعاؤں کا پھل
بہت ہی جو کی تو نے تھیں زاریاں
کہ تیری صداقت ہو سب پہ عیاں
کہ تیری جماعت یہ پُھولے پَھلے
زمانے میں حق کا ہی سکہّ چلے
سو تیری دعاؤں کو میں نے سُنا
تِرے اس سفر کو مُبارک کیا
سُن اے ابنِ مریم سخن دلپذیر
کہ بیٹا میں دُوں گا تجھے بے نظیر
نشاں ہے وہ فضل اور احسان کا
بہت مرتبہ ہے اُس انسان کا
مبارک ہو فتح و ظفر کی کلید
ہے تیرے لئے یہ خوشی کی نوید
وہ آئے گا مُردوں میں دم پھونکنے
نجات ان کو دلوائے گا موت سے
جو قبروں میں ہیں باہر آئیں گے وہ
وہ پھیلائے گا دینِ اسلام کو
مبارک ہو لڑکا یہ پاک و وجیہہ
جو ہو گا سراسر تری ہی شبیہہ
مبارک ہو تجھ کو غلامِ ذکی
جو ہوگا یقینا تری نسل ہی
شکوہ اور عظمت کا حامل ہے وہ
ہماری محبت کے قابل ہے وہ
وہ ہوگا بہت ہی ذہین و فہیم
وہ کلمۂ تمجید، دل کا حلیم
علوم اس میں ہیں ظاہری باطنی
وہ دنیا میں پھیلائے گا روشنی
وہ فرزندِ دلبند ہے ارجمند
خلائق میں ہوگا بہت دل پسند
مبارک کہ وہ ”نور آتا ہے نور
ہو جس سے جلالِ خدا کا ظہور
وہ عِطرِ رضا سے جو ممسوح ہے
وہ سارے زمانے کا ممدوح ہے
وہ ہوگا اسیروں کا بھی رستگار
وہ عجزِ مجسّم، وہ کوہِ وقار
زمانے میں شہرت وہ پا جائے گا
وہ آپ اپنی عظمت کو منوائے گا
وہ ہے حسن و احساں میں تیرا نظیر
کشادہ جبیں اور روشن ضمیر
نواسی میں آخر بفضل خدا
یہ موعود بچہ تولّد ہوا
لگا جلد بڑھنے وہ ماہِ مُبیں
جو سب پیشگوئیاں تھیں پوری ہوئیں
ہوئی جب مسیحِ خدا کی وفات
تو نظروں میں اندھیر تھی کائنات
عدُو کو شماتت کا موقع ملا
شریروں کا بھی غنچۂ دل کھلا
وہ سمجھے جماعت یہ مٹ جائیگی
نشاں بھی نہ اس کا نظر پائے گی
جماعت پہ بھی تھا یہ وقتِ گراں
ہر اک دل تھا زخمی نظر خونچکاں
تھا ہر آدمی بس اسی فکر میں
خدا جانے اب ہم رہیں نہ رہیں
تھی ہر سمت چھائی ہوئی تیرگی
نہ آتی نظر تھی کہیں روشنی
یکایک کِرن اک ہویدا ہوئی
چمک سی نگاہوں میں پیدا ہوئی
جو ظلمت کے بادل تھے چھٹنے لگے
نگاہوں سے پردے بھی ہٹنے لگے
مبدّل ہوئیں ظلمتیں نور میں
جِلا پھر ہوئی جلوۂ طور میں
اُٹھا عزم سے ایک کمسِن جواں
وہ ہمّت، شجاعت کا کوہ گِراں
جماعت پہ موقع تھا یہ جاں گسل
کہ گویا ہوا ابنِ فخر رُسل
قسم ہے مجھے اے مقدس وجود
نہ بیٹھوں گا میں بخدائے ودود
نہ جب تک یہ دنیا تجھے جان لے
نہ وہ تیری تعلیم پہچان لے
تھا انیس سو اور چودہ کا سَن
خلیفہ ہوا جب وہ فخر زمن
خلافت کی جب اُس نے پہنی قبا
تو سارا زمانہ مخالف ہوا
جو تھے دوست وہ بھی عدو بن گئے
سب اپنے پرائے مخالف ہوئے
کمال و محمد علی مستری
غرض اور اس طرح کے سازشی” ١؎
بڑھے اس کی عظمت کو للکارنے
بڑھے دوست بن کر اُسے مارنے”٢؎
اکیلا تھا وہ راہ پُر پیچ تھی
تھی راہوں پہ چھائی ہوئی تیرگی
کوئی بھی تو اس کا سہارا نہ تھا
کہیں درد کا اس کے چارہ نہ تھا
بجُز آستانِ شہہ ذُوالمنن
کہ جا کے جہاں کم ہو دل کی جلن
اسی آستانہ پہ وہ جھک گیا
وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کِیا
وہ سجدے میں گر گر کے روتا رہا
وہ اشکوں کے موتی پروتا رہا
میں مجبور ہوں تُو ہے بااختیار
نہیں مجھ میں طاقت اُٹھاؤں یہ بار
تو دل کو مرے ہمتیں بخش دے
کہ باطل شکن جرأتیں بخش دے
لگا رات دن کام کرنے وہ ماہ
کہ تھی اس کے دل میں محمدؐ کی چاہ
عدو کی بھی پرواہ نہ کی ذرا
اولوالعزم جرنیل تھا جم گیا
یہ لجنہ، یہ تحریک و وقفِ جدید
یہ اسکول و کالج قدیم و جدید
یہ خدام و اطفال، یہ ناصرات
اسی کا ہے مرہون ان کا ثبات
یہ ہیں اس کی ہی محنتوں کے ثمر
جو پودا لگایا ہوا بارور
تھا درد اس کے دل میں جو اسلام کا
معیّن کیا راستہ کام کا
جہاں مختلف دیں کی تصویر تھی
وہیں اس نے مسجد بھی تعمیر کی
جو مسلم کی حالت پہ کرتا نظر
تو کرتا تھا خوں اپنے قلب و جگر
اسیروں کا ناجی مسیحؑ کا پسر
اٹھا بہرِ آزادیئ کاشمر
محبت خدا سے، محمدؐ سے تھی
رہِ دیں میں ہی زندگی کٹ گئی
تھا ضُعف و نقاہت سے اٹھنا محال
نہ آرام کا پھر بھی آیا خیال
سدا خدمتِ دین کرتا رہا
عمل کی وہ تلقین کرتا رہا
تھا انیس سو اور پینسٹھ کا سال
ہوا جبکہ اس شیر دل کا وصال
گیا سب کو روتا ہوا چھوڑ کے
وہ دنیائے فانی سے منہ موڑ کے
نہ اب وہ یہاں لوٹ کر آئے گا
نہ اپنا حسیں چہرہ دکھلائے گا
دعا ہے رہے اپنا حامی خدا
ہیں راضی کہ جس میں ہو اُس کی رضا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

https://www.facebook.com/urdu.goldenpoems/

اپنا تبصرہ بھیجیں