18۔ محبتوں کا سفیر

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ88۔90

18۔ محبتوں کا سفیر

اپنے ربِّ کریم سے میں نے
اپنے آقا کی زندگی مانگی
پر خدا جانے کس لئے میری
نہ دعا کوئی مُستجاب ہوئی
وہ جو اوجھل ہؤا نگاہوں سے
دل نے ہر دم اسے صدا دی ہے
کوئی شکوہ بھی کر نہیں سکتے
چیز جس کی تھی اس نے لے لی
ہے
یاد سے اس کی میرے سینے میں
درد کے لہرئیے سے بنتے ہیں
میری آنکھوںمیں بند ہے برسات
میرے دل میں الاؤ جلتے ہیں
ایک مشفق سا دِلرُبا چہرہ
ذہن میں میرے مسکراتا ہے
جب نظر رُوبَرُو نہیں پاتی
میرا دل ڈوب ڈوب جاتا ہے
وہ اولوالعزم باپ کا بیٹا
عزم اور حوصلے میں یکتا تھا
خندہ پیشانی وصف تھا اُس کا
ہر گھڑی مسکراتا چہرہ تھا
اُس کے چہرے پہ تازگی، کا نکھار
زیرِ لب دائمی تبسّم تھا
جس سے ڈھارس دلوں کی بندھ جائے
کس قدر دلنشیں تکلّم تھا
اہلِ مشرق کے واسطے ڈھارس
اہلِ مغرب کو وہ خوشی کی نوید
غلبہئ دین کی صدی کے لئے
کتنا پُر عزم، کتنا پُر اُمید
بُغض اور نفرتوں کی دنیا میں
بن کے آیا محبتوں کا سفیر
وہ شدائد میں عزم کا پیکر
وہ مصائب میں صبر کی تصویر
مانتی ہوں کہ بے عمل ہیں ہم
مانتی ہوں گناہ گار بھی ہیں
باوجود اپنے سب معاصی کے
ہم امینِ وفا و پیار بھی ہیں
میرے مالک ہمارے جرموں کی
اِس جماعت کو نہ سزا دیجو
ہم خطا کار و بے عمل ہی سہی
تُو تو ارحم ہے رحم ہی کیجو
جانے والے کا دَور خوشکن تھا
آنے والا بھی خیر لایا ہو
جانے والے پہ تیری رحمت ہو
آنے والے پہ تیرا سایا ہو
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں