113۔ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں”

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ334۔336

113۔ ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام
کرنے میں”

مکرم منیر نیازی صاحب کی ایک خوبصورت
نظم
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے
میں
اس نظم کا محرک بنی
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
وہ ہستی جو کہ رحمن و رحیم و کبریا بھی ہے
مجیب و کارساز و قادر و مشکل کشا بھی ہے
مجھے ہے علم اس کے بِن میں کچھ بھی کر نہیں سکتی
تہی داماں ہوں خود جھولی کسی کی بھر نہیں سکتی
نکل جاتا ہے وقت ہاتھوں سے پچھتاوے ہیں رہ جاتے
مگر میں کیا کروں غفلت کے بادل چھٹ نہیں پاتے
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
کسی کی زندگی کی چاہ ہو اس کو بچانا ہو
کسی آفت زدہ کو قیدِ آفت سے چھڑانا ہو
کسی کی سونی سونی مانگ میں افشاں سجانا ہو
کسی کے ہاتھ پر ارمان کی مہندی رچانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
کسی کی بے بسی کو دور کرنے کی تمنّا ہو
کسی ویرانے کو معمور کرنے کی تمنّا ہو
کوئی ظُلمت کدہ پُر نور کرنے کی تمنّا ہو
کسی ناشاد کو مسرور کرنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
کسی آغوش کو پھولوں سے بھرنے کی تمنّا ہو
کوئی بنجر زمیں آباد کرنے کی تمنّا ہو
کسی الجھے مقدر کے سنورنے کی تمنّا ہو
کہیں خوشیوں کی رنگت کے نکھرنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں
کہیں سے ابرِ فکر و رنج چھٹنے کی تمنّا ہو
کسی کے غنچہئ دِل کے چٹکنے کی تمنّا ہو
کسی گل کے بہاروں میں مہکنے کی تمنّا ہو
کسی خاموش بلبل کے چہکنے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
کہیں چہروں پہ مسکانیں سجانے کی تمنّا ہو
کہیں پژمردگی دِل کی مٹانے کی تمنّا ہو
کہیں راہوں میں قندیلیں جلانے کی تمنّا ہو
کسی گمراہ کو رستہ دکھانے کی تمنّا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اُس کے در پہ جانے میں
اگر غفلت کے پردوں کو ہٹا دیتی تو اچھا تھا
دعاؤں سے کوئی بگڑی بنا دیتی تو اچھا تھا
طلب کو رنگِ عرضِ مدّعا دیتی تو اچھا تھا
اگر بروقت میں اس کو صدا دیتی تو اچھا تھا
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں میں اُس کو بلانے میں
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں اس کے در پہ جانے میں
یہ بزمِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
ہمیشہ دیر کر دیتی ہوں پیمانہ اُٹھانے میں
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں