12۔ دعائے وصل

بخار
دل صفحہ51

12۔
دعائے وصل

عرض یوں کرتاہے محبوبِ اَزَل سے خاکسار
اے شہنشاہِ زمین و آسمان و ہر دو وار
جوبھی خوبی ہے جہاں میں سب تمہارا فیض
ہے
کانِ حُسن و چَشمۂ اِحساں تُم ہی ہو
اے نِگار
اک نظر فَضل و کرم کی اس طرف بھی پھیر
دو
ٹِکٹِکی باندھے کھڑاہے در پہ اک اُمیدوار
اے مِرے سورج! دکھا دو پھر اُسی اندازسے
وہ چمک اور وہ دَمَک اور وہ جَھمک اور
وہ بہار
پھر خِرام نازسے دیجے وُہی جلوہ دکھا
پھر اُسی لُطف و اَدا سے کیجئے دِل
کو شکار
اُس شب تاریک پر صد مہر و مہ قُرباں
کروں
جس کی ظُلمت میں جھلک اپنی دکھا دے
وہ نِگار
آئینہ حائِل تھامجھ میں اور رُخِ دلدار
میں1؎
ورنہ کب کا راکھ ہو چُکتا یہ تن پروانہ
وار
اے مِرے دِلبر’ مرے جاناں’ مِرے دِل
کے سُرور
ایک ہے تُم سے دُعا میری یہ باصد اِنکِسار
کُشتۂ حسن و ادا ؤ ناز پر ہو اِک نظر
مُدّتوں سے یہ پڑا ہے بے کفن اوربے
مزار
زندگی میں تو ترستا رہ گیا آغوش کو
مر گیا ہے ۔ اب توکرلیجے ذرا اِس سے
پیار
چادرِ مِہر و مُروّت میں اسے دیجے لپیٹ
گوشۂ چشمِ مَحبت میں اسے لیجے اُتار
ایک نَفْخِ رُوح کر کے اُس کو پھر زندہ
کریں
اور بسر یہ زندگی ہو ازپئے رضوانِ یار
وَصل کی گھڑیاں مُیَسَّرہوں ہمیں ہر
روز و شب
دُور ہوں فضلوں سے تیرے ہجر کی شب ہائے
تار
آمین
1؎ ایک کشف کی طرف اشارہ ہے جو الفضل
3نومبر 1936ء میں شائع ہوا۔
1921ء

اپنا تبصرہ بھیجیں