46۔ ہماراآفتاب

بخار
دل صفحہ125۔127

46۔
ہماراآفتاب

26مئی 1908کی یادمیں
اس
نظم میں قرآن مجید کی ایک آیت
حتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَاب ص:33
باربار آتی ہے، اس کے معنی ہیں ”یہاں تک کہ وہ سورج چھپ گیا” یہاں ہر بند میں یہ
آیت حضرت مسیح موعودؑ کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ سوائے نمبر 7 اور نمبر 9 والے بند
کے۔ جہاں یہ نفس اور دُنیا کے لئے ہے۔ آفتاب شمس اور نفس اور دنیا تینوں عربی زبان
میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں ۔
افسوس! میرا آفتاب، وہ مہدئ والا خطاب
روشن کیا جس نے جہاں، با صد ہزاراں
آب و تاب
ہم عشق میں سمجھا کئے، یا پڑ گئے دِل
پر حِجاب
زندہ رہے گا تااَبد، چمکے گا تا یومُ
الحِساب
دھوکا رہا آخر تلک ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
مُحسن وہ میرا آفتاب وہ عیسٰؑئ عالی جناب
ہر دم قلم اُس کا رہا مصروفِ تَصنِیفِ
کتاب
تجدید کی اسلام کی بتلا دیا جو تھا
خراب
عیسائی’ برہمو’ آریہ سب اُس کے آگے
لاجواب
لڑتا رہا وہ چَومُکھا ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
میرا پیارا آفتاب یا چودھویں کا ماہتاب
اسلام کے دکھ درد سے ہوتا تھا دِل جس
کا کباب
تبلیغِ حق’ عشقِ خدا ۔ تعلیم کا لُبِّ
لُباب
بنتے تھے پیکر نُور کے صُحبت میں جس
کی شیخ و شاب
فیضان تھے جاری یہ سب ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
شمسُ الضُّحیٰ وہ آفتاب ۔ وہ صاحبِ
فَصلُ الخِطاب
دِکھلا گیا زندہ خدا’ زندہ نبی’ زندہ
کتاب
ذہنیتیں تبدیل کیں کر دی حقیقت بے نقاب
سیراب سب کو کر گیا وہ خیرو برکت کا
سَحاب
چلتا رہا یونہی حساب ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
نُورِ نظر وہ آفتاب وہ طوطئ حاضِر جواب
اِک نغمۂ مَسحور کُن گویا ملائک کا
رُباب
خوشبو کی لَپٹیں چار سُو جیسے کہ جنت
کا گلاب
ہم مست تھے اور بے خبر ۔ ساقی تھا یا
جامِ شراب
پیتے گئے بس بے حساب ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
روحانیت کا آفتاب دُنیا میں چمکا بے
حجاب
وہ حُسن جس کے سامنے سارے حسیں تھے
آب آب
آئی اجل اتنی شتاب گویا کہ اک دیکھا
تھا خواب
ہم کو بھلا تھی کیا خبر ہیں وہ کھڑے
پا دَر رِکاب
بے فکریوں میں ہم رہے ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
وہ آسمانی آفتاب وہ مظہرِ ختمی مآبؐ
جب آ گیا حُکمِ قضا بس ہوگیا زیرِ تُراب
دنیائے فانی ہے سَراب اور زندگی مِثلِ
حُباب
یاں آئے ہیں سب اس لئے تا کچھ کما لیں
دیں’ ثواب
کچھ پاک کر لیں نَفس کو ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
یا رَبّ ہمارا آفتاب صلِّ علیہِ بے
حساب
مجلس میں تھے جو بار یاب’ تھے بامراد
و کامیاب
تقویٰ کی تھی منہ پر نقاب دِل عشق میں
تیرے کباب
مخمور تھے مدہوش تھے ۔ قُربانیاں تھیں
لاجواب
چلتا رہا دورِ شراب ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
احمدؐ نبی تھا آفتاب کیسی دَمَک کیا
آب و تاب
اے دوستو ہمّت کرو’ خدمت کرو’ لے لو
ثواب
نُصرت کرو محمودؔ کی برپا کرو اک اِنقلاب
اسلام تا زندہ رہے روشن رہے یہ آفتاب
دنیا کے آخر دن تلک ۔ حتیّٰ
تَوَارَتْ بِالْحجاب
آمین
الفضل 6فروری 1943ء

اپنا تبصرہ بھیجیں