52۔ اُن کارنگ

بخار دل صفحہ134۔135

52۔
اُن کارنگ

دِکھلایا قادیان نے جب مُعجِزانہ رنگ
لاہور نے بھی پیش کیا ساحِرانہ رنگ
صالح تھے اور نیک تھے جو بعض آشنا
افسوس! ان پہ چڑھ گیا اب باغیانہ رنگ
پیدا ہوئے ہیں مُصلِحِ موعود گو کئی
لیکن ”میاں1؎” کے آگے کسی کا جما
نہ رنگ
اے ہم نشیں! بتا وہ مُجَدّد تھا یا
رسول
دکھلاتا جو ہمیشہ رہا مرسَلانہ رنگ
برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان تھی
اس کا تو اے عزیز! تھا شاہنشہانہ رنگ
الحاج” خود کو کتنا ہی کہتا
پھرے کوئی
مجرم ہے پھر بھی اس میں ہو گر فاسقانہ2؎
رنگ
کیونکر بناؤں پِیر مَیں اپنا اُسے،
کہ جو
چلتا بنا دکھا کے ہمیں سارِقانہ رنگ
رکھ کر کتابیں سامنے، تصنیفیں خوب کِیں
اچھا ہے میرے دوست، ترا مُنشِیانہ رنگ
غصہ تو ہم پہ، گالیاں مُرشِد کو اپنے
دیں
حیف، ایک احمدی کا ہو یہ سُوقیانہ رنگ
تُو، اور ہم کو پِیر پرستی کا طعنہ
دے
!
جا دیکھ اپنے بُت کا ذرا آمِرانہ رنگ
کہتے تھے ہم تو لاکھوں ہیں اب اُڑ گئے
کہاں
بگڑے کسی کا یوں تو، مرے اے خدا، نہ
رنگ
غیروں سے جا ملے کہ ملے عزّت اور مال
اگلا بھی رنگ کھویا نہ چندہ ملا نہ
رنگ
پوری ہوئیں مسیح کی سب پیشگوئیاں
جو جو دکھا رہا ہے تمھیں اب زمانہ رنگ
کب تک رہو گے ضد و تعصب میں
ڈوبتے
کب تک چلے گا آپ کا یہ حاسِدانہ رنگ
دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا
دیا
محمودؔ کا تو کافی ہے یہ معجزانہ رنگ
پھر آ کے پاس بیٹھو ہمارے حبیبؐ کے
جس نے تمہیں دیا تھا کبھی صالحانہ رنگ
1؎ یعنی حضرت خلیفہ ثانی میاں بشیرالدین محموداحمد               2؎  وَمَنْ كَفَرَ
بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور 56)۔
الفضل 24فروری1943ء

اپنا تبصرہ بھیجیں