74۔ ترکِ دنیا

بخار
دل صفحہ191۔193

74۔
ترکِ دنیا

نصیحت از الوصیّت
ارے سننے والو! ذرا کان کھولو
خدا تُم سے کیا چاہتا ہے؟ یہ سُن لو
یہی بس کہ اُس کے ہی ہو جاؤ بالکل
نہ ہرگز شریک اُس کا جانو کسی کو
بشارت از الوصیّت
سبھی دنیا پہ ہیں مَفتوں خدا گویا خیالی
ہے
کسی کو ڈر نہیں اک دن قیامت آنے والی
ہے
دکھا اے احمدی جَوہَر کہ خاص اِنعام
مل جائیں
مبارَک ہو ابھی تک قُرب کا میدان خالی
ہے
دُنیا مَتاعُ الغُرور ہے
کبھی اس کے بھرّوں سے اے میرے یار
نہ دھوکے میں پھنس جانا تُم زِینہار
بھروسے کے قابل یہ دُنیا نہیں
کہ ‘کاتک کی کُتیا کا کیا اعتبار
ترک دنیا کی تفصیل از الوصیّت
ترکِ مرضی، ترکِ عِزَّت، ترکِ جاں
ترکِ زرّ اور ترکِ لذّت بیگُماں
ترک اتنے ہوں تو ملتا ہے خدا
ہیں یہ سب مُترادِفِ ”ترکِ جہاں
ترکِ دنیا کے معنی ترکِ فُضول ہیں
فُضول کو ترک کر’ اے طائر! کہ اُڑ سکے
تو پروں سے اپنے
نہیں تو دنیا میں یوں پھن;سے گا، فلائی1؎
پیپر پہ جیسے مکّھی
حلال میں سے بھی صرف وہ لے جو فرض ہو
تجھ پہ اور لازِم
حرام کر لے فُضول گوئی، فضول خوری،
فُضول خرچی
(1)
فلائی پیپر وہ کاغذ جس پر سریش کی وجہ سے مکھی بیٹھتے ہی چپک کر رہ جاتی ہے۔
دنیاہے جائے فانی، دِل سے اِسے اُتارو
(ورثمین)
رشتہ اس دنیاسے اپنا اے مِری جاں توڑ
دے
دِل خداسے جوڑلے اور رُخ اُدھر کو موڑ
دے
عقلمندی بھی یہی ہے – حکم بھی ایسا
ہی ہے
جو ہے آخر چھوڑنی، پہلے ہی اُس کو چھوڑ
دے
دُنیاکاانجام
تندرستی اور جوانی میں عجب اک جان تھی
آن تھی اور بان تھی اور تان تھی اور
شان تھی
پھر گزر کر وہ زمانہ، ہو گیا جس دم
ضعیف
ہائے ہائے” رات دن اور مَوت
کی گردان تھی
چھوڑ کر سب کچھ، چلا جب ہاتھ خالی اُس
طرف
گھر الگ ویران تھا، بیوی الگ حیران
تھی
کام سارے تھے اَدھورے، بندھ گیا رَختِ
سَفَر
دِل بھی مصروفِ فُغاں تھا، آنکھ بھی
گِریان تھی
وائے حسرت، مالک و مُحسن سے لاپروا
رہا
تب پتا اُس کو لگا، جب سامنے میزان
تھی

اپنا تبصرہ بھیجیں