100۔ کھجیار

بخار
دل صفحہ222۔223

100۔
کھجیار

کھجیار ڈلہوزی سے چندمیل کے فاصلہ پرریاست
چنبہ میں ایک نہایت ہی پُرفضامیدان کانام ہے جس کے چاروں طرف پہاڑہیں اوراُس پر دیودار
کے درخت آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔میدان کے بیچ میں ایک چھوٹی سے جھیل بنی ہوئی ہے
جس میں ایک چھوٹاساجزیرہ تیرتاپھر رہاہے۔میدان کے کنارے پردو تین ڈاک بنگلے مسافروں
کے قیام کے لئے بنے ہوئے ہیں۔ایک مندر اور ایک دُکان بھی ہے۔کھجیارکا منظر اتنادلفریب،خوشنمااوردِل
لبھانے والاہے کہ اُس کی تصویرقلم سے نہیں کھینچی جاسکتی۔انسان دیکھ کرہی اُس کا پورالطف
اُٹھاسکتاہے۔اسی قدرتی منظر سے متاثر ہو کر یہ نظم لکھی گئی ہے۔ نظم کا چوتھا شعر ایک
دلچسپ قصہ سے متعلق ہے جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک جوگی کھجیار
میں آکر جھیل کے کنارے بیٹھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ جھیل کتنی گہری ہے اُس نے رسّی
بٹ بٹ کر پانی میں ڈالنی شروع کی۔ بارہ برس تک وہ رسی بٹ بٹ کر جھیل میں ڈالتا رہا۔
مگر اُس کا تھاہ نہ ملی۔ آخر جوگی نے یہ کہہ کر ‘واہ بے اَنت’ جھیل میں چھلانگ لگائی
اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔
بس گیا دِل میں مِرے ماہِ لِقائے کھجیار
سامنے پھرتی ہے آنکھوں کے فضائے کھجیار
وادئ عشق کے اَفسُردہ دلوں سے کہہ دو
رُوح پرور ہے عجب آب و ہوائے کھجیار
آزمائیں جو کبھی اس کو اَطِبّائے زَماں
سب دوا چھوڑ دیں جُزخاکِ شفائے کھجیار
حُسنِ ‘بے اَنت’ میں کیا جانے کشِش
کیسی تھی
جوگی جی” ہو گئے تَن مَن سے
فدائے کھجیار
گوشۂ چشم میں عاشِق کو جگہ دی اس نے
سیکھ لے بزمِ حسیناں! یہ وفائے کھجیار
مَردُمِ1؎ چَشم جو ہلتی ہے اِدھر اور
اُدھر
ناوِکِ صیدِ جگر ہے یہ ادائے کھجیار
سرو آزاد2؎ ہوئے عشق میں اُس کے پابند
منہ سے خاموش ہیں پر سر میں ہوائے کھجیار
واں تو وہ قحطِ رَسَد اور یہاں یہ اَفراط
شاہِ چنبہ3؎ سے تو بہتر ہے گدائے کھجیار
شوخیاں وصل کی شب کی نہیں بھولیں اب
تک4؎
یاد ہیں ہم کو وہ سب جَور و جفائے کھجیار
ہم نے پہلے بھی دیاکوچہ میں اس کے پہرا5؎
آج پھر قندِ مکررّ6؎ ہے سرائے7؎ کھجیار
چنبہ و کُنڈؔ گئے، ٹوپؔ بھی دیکھا کالا
پر نہ پائے کہیں، یہ ناز و ادائے کھجیار
زندگی اس کی بھی کیا خاک ہے اس دنیا
میں
جو کہ ہوتے ہوئے وُسعت کے نہ آئے کھجیار
جس کی مخلوق میں یہ حُسن و دِلآویزی
ہو
کس قدر خود وہ حسیں ہو گا خدائے کھجیار
1؎ مردم چشم یعنی وہ چھوٹا سا جزیرہ جو جھیل میں تیرتا
پھر رہا ہے۔ 2؎ دیودار کے اُونچے اُونچے درخت جو میدان کے چاروں طرف کھڑے ہیں۔ 3؎ اس
زمانہ سخت قحط پڑا ہوا تھا چنبہ میں روپیہ کا تین سیر آتا ملتا تھا اور وہ بھی مکئی
کا۔ اور بنتا بھی مشکل سے تھا۔ مگر کھجیارمیں گیہوں کا آٹا حسبِ ضرورت مل گیا اور ہم
نے خدا کا شکر ادا کیا۔ 4؎ یہ نظم چنبہ سے واپسی پر جب دوبارہ کھجیار میں ٹھہرے اُس
وقت لکھی گئی تھی۔ 5؎ جب ہم ڈاک بنگلے میں جا کر ٹھہرے تولوگوں نے کہاکہ”یہاں رات
کوریچھ نکلتاہے ہوشیارسوئیں” ہم حضرت صاحب کی حفاظت کے لئے باری باری ساری رات بندوق
ہاتھ میں لئے پہرا دیتے رہے اور آگ روشن رکھی۔اس شعرمیں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ 6؎ ایک
مرتبہ یہاں ہم چنبہ جاتے ہوئے ٹھہرے تھے۔دوسری مرتبہ آتے ہوئے قیام کیا۔ 7؎ سرائے کھجیارڈاک
بنگلہ
الفضل 3 جون 1943ء

اپنا تبصرہ بھیجیں