107۔ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہ

بخار
دل صفحہ232-233

107۔
ا
ِنَّمَا اَشْکُوْا
بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہ

دو مِرے بازو تھے، دونو کٹ گئے
ایک اُن میں بھائی مِیر اسحٰق تھے
دُوسرے تھے حضرتِ مرزا شفیع
خُسر ہو کر، کارکُن تھے بن گئے
چھوڑ کر اس عالمِ فانی کو، آہ!
سال کے اندر ہی دونوں چل بَسے
ہو گیا بے دَست و پا اُن کے بغیر
کون میرے کام، اے مولا! کرے
کوئی اُن جیسا نظر آتا نہیں
ناز برداری جو میری کر سکے
وہ تَعَاوُن اور وہ خدمت اب کہاں
چل دیے جب سے یہ دو مُحسن مِرے
زِندگانی کا مزا اُس کی ہے کیا؟
جس کے مُخلص ہی نہ ہوں باقی رہے
تھے وصی1؎ میرے وہ دونوں، لیک حیف!
میں تو جیتا رہ گیا، وہ مر گئے
ہوں مدارج اُن بزرگوں کے بُلند
حق تعالیٰ مَغفِرت اُن کی کرے
وہ تو آ سکتے نہیں دُنیا میں پھر
اب تو مجھ کو ہی خدا واں لے چلے
نیز جب تک ہے حیاتِ مُستَعار
اک جماعت خیر خواہوں کی مِلے
اَے خدا، اے چارۂ آزارِ ما
عرض ہے تُجھ سے، اگر تُو مان لے
عُمر پہلی کی، نہ کریو باز پُرس
عُمر باقی، تیری طاعَت میں کٹے
1؎ ٹرسٹی

اپنا تبصرہ بھیجیں