114۔ میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب

بخارِدل
صفحہ281۔282

114۔
میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب

1
یہ دُعا فرمائیے، لائے خدا
جلد اس کو درمیانِ قادیاں1؎
2
حق بھی مٹتا ہے تعدّی سے کہیں اے ظالم
خود ہی مٹ جائے گا تُو دست و گریباں2؎
ہو کر
3
مال اور املاک وقفِ دِیں ہوئے
شوقِ جاہ و مال زائل ہو گیا3؎
4
مرا نام ابّا نے رکھا ہے مریم
خدایا! تو صدیقہ مجھ کو بنا دے4؎
5
ع    وصیت کے ادا ہونے میں یا ربّ! کچھ نہ ہو دِقّت5؎
6
مریم، امولا، طیبہ بشریٰ، نصیرہ، سیّدہ
اتنے نفر درکار ہیں
1۔؎ حضرت میر صاحب 1936ء میں ریٹائر
ہونے کے بعد مستقل طور پر قادیان میں مقیم ہو گئے۔
 2۔؎ امان اللہ خان امیرِ کابل نہایت گمنامی کی حالت
میں اٹلی میں مر گیا۔
 3۔؎ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی تحریک وقفِ مال و
املاک پر حضرت میر صاحب نے بڑی خوشی سے لبیک کہا ۔
 4۔؎ حضرت مریم صدیقہ (اُمّ متین) حرم محترم کے متعلق
پورا ہوا۔
 5۔؎ اپنی زندگی میں ہی حصہئ وصیت ادا کر دیا تھا۔
6۔یہ دُعا میں نے 1924ء میں مانگی
تھی۔ سو آج 1945ء میں اپنی زندگی میں اسے پورا ہوتا دیکھتا ہوں۔ الحمدللہ۔ یہ دُعا
میری اور میر اسحٰق صاحب کی لڑکیوں کی شادی کے متعلق تھی۔ جو اس وقت موجود تھیں۔ امۃاللہ
کو بچپن میں پیار سے امولا کہتے تھے۔ (میر محمد اسمٰعیل)
7۔ع   روپے دے، کارکن دے اور
اشیاء
سو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے
اس کتاب (طبع اوّل) کے سارے انتظام 1945ء میں شیخ اسمٰعیل پانی پتی کو کارکن بنا کر
اور قادیان میں پریس کی سہولتیں مہیا کر کے اور کاغذ محض اپنے فضل سے عنایت کر کے بہم
پہنچا دیئے۔ (میر محمد اسمٰعیل)
(اس زمانہ میں کاغذ نہایت نایاب تھا اور پرمٹ پر بھی بہت مشکل سے ملتا تھا۔) (محمد
اسمٰعیل)

اپنا تبصرہ بھیجیں