35۔ تحریک دعائے خاص

درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ66۔69

35۔ تحریک دعائے خاص

دعائے
مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(1)
یاد ہے چھبیس مے سن آٹھ٭ حزب
المومنیں
!
وہ غروبِ شمس وقتِ صبح محشر آفریں
دیکھنے نہ پائے جی بھر کر کہ رخصت
ہو گیا
مشعلِ ایماں جلا کر نورِ دورِ
آخریں
ہاتھ ملتے رہ گئے سب عاشقانِ جاں
نثار
لے گیا ” جانِ جہاں” کو گود میں
جاں آفریں
جسمِ اطہر کے قریں مرغانِ بسمل کی
تڑپ
ہو رہی تھی روحِ اقدس داخلِ خلدِ
بریں
جس طرف دیکھا یہی حالت تھی ہر
شیدائی کی
سر بہ سینہ ، چشمِ باراں، پشت خم،
اندوہ گیں
حسرتیں نظروں میں لے کر صورتیں سب
کی سوال
اب کہاں تسکین ڈھونڈیں” بے
سہارے” دل حزیں
وہ لب جاں بخش کہہ کر قم
باذنی

چپ ہوئے
ہجر کے ماروں کو اب کوئی جلائے گا
نہیں؟
کون دکھلائے گا ہم کو آسمانی
روشنی؟
چودھویں کا چاند” چھپ
جائے گا اب زیر زمیں
دونوں ہاتھوں سے لٹائے گا خزانے
کون اب؟
تشنہ روحیں کس سے لیں گی آب فیضان
معیں؟
(2)
اک جوانِ منحنی اٹھا بعزمِ استوار
اشکبار آنکھیں لبوں پر عہدِ راسخ
دل نشیں
شوکتِ الفاظ بھرائی ہوئی آواز میں
کرب وغم میں بھی نمایاں عزم و
ایمان و یقیں
میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے
کام کی
میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا بر
روئے زمیں
زندگی میری کٹے گی خدمتِ اسلام میں
وقف کردوں گا خدا کے نام پر جانِ
حزیں
یہ ارادے اور اتنی شانِ ہمت دیکھ
کر
اس گھڑی بھی ہو رہے تھے محوِ حیرت
سامعیں
درد میں ڈوبی ہوئی تقریر، سن سن کر
جسے
لوگ روتے تھے ملائک کہہ رہے تھے ”
آفریں
چشم ظاہر بیں سے پنہاں ہے ابھی اس
کی چمک
تیری قسمت کا ستارا بن چکا ماہِ
مبیں
(3)
سر پہ اک بارِ گراں لینے کو آگے ہو
گیا
ناز کا پالا ہوا ماں باپ کا طفلِ
حسیں
کر نہیں سکتا کوئی انکار عالم ہے
گواہ
جو کہا تھا اس نے آخر کر دکھایا
بالیقیں
ذاتِ باری کی رضا ہر دم رہی پیشِ
نظر
خلق کی پروا نہ کی خدمت سے منہ
موڑا نہیں
چیر کر سینے پہاڑوں کے بڑھے اس کے
قدم
سینہ کوبی پر ہوئے مجبور اعدائے
لعیں
دشمنوں کے وار چھاتی پر لئے مردانہ
وار
پشت پر ڈستے رہے ہر وقت مارِ آستیں
ایسی باتیں جن سے پھٹ جاتا ہے پتھر
کا جگر
صبر سے سنتا رہا ماتھے پہ بل آیا
نہیں
کوئی پوچھے کس گنہ کی اس کو ملتی
تھی سزا؟
کس خطا پر تیر برسائے؟ گروہ ظالمیں!
گریۂ یعقوب نصفِ شب خدا کے سامنے
صبرِ ایوبی برائے خلق با خندہ جبیں
صرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب
طاقتیں
جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا
نہیں
ارضِ ربوہ جس کی شاہد ہے وہ معمولی
نہ تھا
خونِ ”فخرالمرسلیں” تھا شیرِ
اُمّ المومنیں
آج فرزندِ مسیحائے زماں بیمار ہے
دعویٰ دارانِ محبت سو رہے جا کر
کہیں؟
قومِ احمد جاگ ُتو بھی، جاگ اس کے
واسطے
ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا
نہیں
ہو دعائے دردِ دل سالم رہے قائم
رہے
یہ ”دعائے احمدِ ثانی” نویدِ
اوّلیں
آمین
٭ 26مئی1908ء یوم وفات حضرت مسیح
موعود علیہ السلام
الفضل جلسہ سالانہ نمبر1957ء

اپنا تبصرہ بھیجیں