55۔ عزیزہ قیصرہ کی طرف سے اپنی امی کے نام

درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ104۔105

55۔ عزیزہ
قیصرہ کی طرف سے اپنی امی کے نام

محترمہ بشریٰ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مکرم صدیق یوسف صاحب دارالصدرغربی ربوہ اپنے ایک
مضمون میں تحریر کرتی ہیں۔
آپ سیدہ کے نام لاہور سے محترمہ قیصرہ بیگم صاحبہ کا خط آیا۔ انہوں نے آپ کو
”پیاری دادی جان” لکھا ہوا تھا۔ میں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو دادی جان کس نے لکھا
ہے کیونکہ میں کبھی کسی پوتے یا پوتی کو آپ کودادی جان کہتے نہیں سنا تھا۔ سب آپ کو
”بڑی اُمی” کہتے تھے۔ آپ سیدہ نے بتایا کہ یہ میاں (یعنی حضرت نواب محمد علی خان
صاحبؓ) کی بھتیجی قیصرہ بیگم ہیں یہ مجھے دادی جان کہتی ہیں۔
پھر آپ نے قیصرہ بیگم کی طرف سے لکھی ہوئی نظم دکھائی اور بتایا کہ قیام پاکستان
سے پہلے کی بات ہے کہ عزیزی قیصرہ کے امی ابا سفر پر گئے ہوئے تھے اور اس بچی کو میرے
پاس چھوڑ گئے تھے۔ یہ اپنی امی کو بہت یاد کرتی تھی اور اس کی فرمائش پر یہ نظم لکھی
تھی اور اس کی طرف سے اس کی والدہ کو بھجوائی تھی۔ اب جب عزیزہ قیصرہ بیگم کا خط جو
لاہور سے آیا تھا اس کے جواب میں دوبارہ یہ نظم لکھوا کر انہیں بھجوائی۔ آپ سیدہ فرماتی
ہیں کہ یہ اس خط کی نقل ہے جو میں نے اشعارمیں تمہاری طرف سے تمہاری والدہ مرحومہ کو
لکھا تھا
سلام
اس پہ جس شاخ کا ہوں ثمر
بڑا
حق ہے جس کا میری ذات پر
بڑے
پیار سے جس نے پالا مجھے
سمجھتی
ہے گھر کا اجالا مجھے
سنا
ہے کہ چاہو جو جنت ملے
تو
پاؤ گے ماؤں کے قدموں تلے
خدا
نے کہا یہ قرآن میں
رہو
اپنی ماؤں کے فرمان میں
نہ
بات ان کی الٹو نہ تم اف کہو
وہ
کچھ کہہ بھی لیں گر تو چپکے رہو
ذریعہ
بنے گی یہ اس کی رضا کی
اطاعت
ہے ماں کی اطاعت خدا کی
دیا
سخت حکم اور تاکید کی
نہ
احسان میں ماں باپ کے ہو کمی
یہ
فرمان ربی ہے کیوں؟ اس لئے
کہ
اُس نے سہے دکھ تمہارے لئے
بڑے
درد سہہ کر مصیبت اُٹھا کر
ملایا
تمہیں اس دنیا میں لا کر
رکھا
آنکھ میں مثلِ نورِ نظر
پلایا
تمہیں اپنا خون جگر
خدا
کی گواہی یہ جب سے سنی ہے
بہت
قدر دل میں مرے بڑھ گئی ہے
میری
پیاری اُمی میری سب سے پیاری
رہوں
گی دل و جاں سے تابع تمہاری
دعا
کر رہی ہوں کہ مولا مرے
مجھے
ماں کی خدمت کی توفیق دے
اطاعت
کروں دور ہوں یا قریب
کہیں
سب مجھے بادب بانصیب

اپنا تبصرہ بھیجیں