04۔ انقطاع الی اللہ

کلام
ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 6۔8

04۔
انقطاع الی اللہ

1910ء
سر پر کھڑی ہے موت ذراہوشیار ہو
ایسانہ ہو کہ توبہ سے پہلے شکار ہو
زندہ خدا سے دل کو لگا اے عزیزِمن
کیا اُس سے  فائدہ جو فنا کا شکار ہو
کیوں ہو رہا ہے عشقِ بتاں میں خراب
تُو
تجھ کو تو چاہیئےکہ خدا پر نثار ہو
یادِ خدا میں تجھ کو ملے لذت وسرور
بس تیری زندگی کا اِسی پر مدار ہو
تجھ کو اسی کا شوق ہو ہر وقت ہر
گھڑی
ہردم اسی کے عشق کا سر میں خمار ہو
خالی ہو دل ہوائے متاعِ جہان سے
تجھ کو بس اک آرزوئے وصل ِیار ہو
یادِحبیبؐ سے نہ ہو غافل کبھی بھی
تُو
اس بات سے کوئی ترا مانع ہزار ہو
سینہ ترا ہو مدفنِ حرص وہواؤآز
دل تیرا،تیری آرزوؤں کا مزار ہو
جاہ وجلال ِدنیائے فانی پہ لات مار
گر تُو یہ چاہتا ہے کہ تُو
باوقارہو
ہو فکر تجھ کو روزِ جزاکی لگی ہوئی
اس اس کے غم میں آنکھ تیری اشکبار
ہو
تسکینِ دل تو چاہتا ہے گر،توچاہیئے
دل کو ترے کبھی بھی نہ اے جاں قرار
ہو
ایسا نہ ہو کہ تجھ کو گرائے یہ منہ
کے بل
ہاں ہاں سنبھل کے نفسِ دنی پرسوار
ہو
آگاہ تجھ کو تیری بدی پر کرے ضمیر
ناصح ہودل ترا نہ کہ یہ خاکسار ہو
طالب نگاہِ لطف کا ہوں مدتوں سے
میں
مجھ پر بھی اک نظر مرے پروردگارہو
احمدیہی دعا ہے کہ روزِ جزا نصیب
تجھ کو نبئ کریمؐ کا قرب وجوارہو

اپنا تبصرہ بھیجیں