14۔ اے مالکِ کون ومکاں آؤ مکیں کو لُوٹ لو

کلام
ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 23۔24

14۔
اے مالکِ کون ومکاں آؤ مکیں
کو لُوٹ لو

"لوٹ دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں
ڈاکا ڈالا جائے،یہ لوٹ بدترین گناہوں میں سے ہے۔دوسری قسم کی لوٹ یہ ہے کہ پاک محبت
کے تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال وجان کو اپنا بنا لیا جائے۔ایسی لوٹ انسانی
روح کی جلاء کے لیے ایک بھاری نعمت ہے۔سوذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی لوٹ
کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان و
مال کو لوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بیوفائی
سے اپنے سمجھ رکھے ہیں۔مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں ۔اگر فنِ نظم گوئی کے
لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابلِ معافی سمجھی جائے۔اصل غرض دلی جذبات کا
اظہار ہے۔پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیشِ نظر ہے۔
خاکسار
مرزا بشیر احمد
رتن باغ لاہور48۔01۔30
مری سجدہ گاہ لُوٹ لومیری  جبیں کو لُوٹ لو
میرے عمل کولُوٹ لواور میرے دیں
کولُوٹ لو
میری حیات وموت کا مالک ہو کوئی
غیر کیوں
تم میری ہاں کو لُوٹ لو،میری نہیں
کو لُوٹ کو
رنج وطرب میرا سبھی پس ہو تمہارے
واسطے
روحِ سرور لُوٹ لو ،قلبِ حزیں کو
لُوٹ لو
جب جاں تمہاری ہوچکی پھرجسم کا
جھگڑا ہی کیا
مرا آسماں تولٹ چکا اب تم زمیں کو
لُوٹ لو
نانِ جویں کے ماسوا دل میں میرے
ہوس نہیں
چاہو تو اے جاں آفریں نانِ جویں کو
لُوٹ لو
گھر بار یہ میرا نہیں اورمَیں بھی
کوئی غیرہوں !
اے مالکِ کون ومکاں آؤ مکیں کو
لُوٹ لو
ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ستمبر1963ء

اپنا تبصرہ بھیجیں