51 ہار ٹلے پول کا وہ پھول، وہ محبوب گیا

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ126۔128

51 ہار ٹلے پول کا وہ پھول، وہ محبوب گیا

مکرم ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب آف ہارٹلے پول (Hartlepool) کی وفات پر
ہارٹلے پول میں کل ایک کنول ڈوب گیا
ہارٹلے پول کا وہ پھول ، وہ محبوب گیا
مسکراتا تھا ہمیشہ وہ نجیب ابنِ نجیب
اس کے اخلاق نرالے تھے ‘ ادائیں تھیں
عجیب
پیکر ِضبط تھا وہ ۔ صبر کا شہزادہ تھا
اس کے گرویدہ تھے سب ۔ ہر کوئی دلدادہ
تھا
اس کے ہی غم سے تو آج آنکھیں ہوئی ہیں
پُر آب
ذکر سے جس کے کِھل اٹھتے تھے کبھی دل
کے گلاب
یاد رکھے گی وہ اک پھول سدا اردو کلاس
دل سے اٹھلاتی ہوئی اٹھے گی اس کی بوباس
وہ سمندر کے کنارے ہمیں لے جاتا تھا
دیر تک وہ لب ِساحل ہمیں ٹہلاتا تھا
راگ موجوں کا بڑوں چھوٹوں کو بہلاتا
تھا
اب خیال آتا ہے وہ اس کے ہی گن گاتا
تھا
کبھی ہم اُس کو لطیفوں سے ہنساتے تھے
بہت
کبھی گاتے تھے تو وہ پیار سے سمجھاتا
تھا
آؤ اب بنچوں پہ ساگر کے کنارے بیٹھیں
تھک چکے ہو گے تمہیں کل بھی تو جگ راتا
تھا
میں تمہیں مچھلی کھلاؤں گا تر و تازہ
چلو
ہے ابھی تک کھلا فش شاپ کا دروازہ چلو
اس کی مہمان نوازی ہمیں یاد آئے گی
بے غرض اس کی محبت ہمیں تڑپائے گی
وہ کئے رکھتا تھا پہلے سے ہی سب کچھ
تیار
کئی کھانوں کی لگا رکھتا تھا میزوں
پہ قِطار
ہمیں بٹھلا کے بڑی تیزی سے پھر جاتا
تھا
اپنے بچوں کو لئے ساتھ وہ سوئے بازار
جلد بازار سے لے آتا تھا تازہ مچھلی
گرم بھاپ اٹھتی تھی مچھلی سے نہایت
مزیدار
اب اسے ڈھونڈنے جائے تو کہاں اردو کلاس
اسے اب دیکھے گی دل ہی میں نہاں اردو
کلاس
جس کی خاطر وہ ہمیں کرتا تھا پیار اے
وائے
وہ بھی غمگین ہے اس کے لئے بے حد ،
ہائے
صبر کی کرتا ہے تلقین وہ اوروں کو مگر
کاش! اُس کو بھی تو اس غم سے قرار آ
جائے
دفن ہو جائے گا کل ساجدہ کی قبر کے
ساتھ
اے خدا! قرب یہ دونوں کو بہت بہلائے
فاتحہ کے لئے ہم جائیں تو یہ نہ ہو
کہیں
ہم سے شکویں کریں وہ قبریں کہ اب کیوں
آئے
اب کبھی ہم سے ملو گے بھی تو بس خوابوں
میں
یہ کنول اب نہ کھلیں گے کہیں تالابوں
میں

اپنا تبصرہ بھیجیں