24۔ میں نے جس دن سے ہے پیارے ترا چہرہ دیکھا

کلام
محمود صفحہ45

24۔ میں نے جس دن سے ہے پیارے ترا چہرہ
دیکھا

میں نے جس دن سے ہے پیارے ترا چہرہ
دیکھا
پھر نہیں اور کسی کا رخِ زیبا دیکھا
سچ کہوں گا کہ نہیں دیکھی یہ خوبی ان
میں
چہرۂ یوسف و اندازِ زلیخا دیکھا
خاک کے پتلے تو دنیا میں بہت دیکھے
تھے
پر کبھی ایسا نہ تھا نور کا پُتلا دیکھا
جب کبھی دیکھی ہیں یہ تیری غزالی آنکھیں
میں نے دنیا میں ہی فردوس کا نقشہ دیکھا
تیرے جاتے ہی ترا خیال چلا آتا ہے
تیرے جانے میں بھی آنے کا تماشہ دیکھا
تیری آنکھوں میں ہے دیکھی ملک الموت
کی آنکھ
ہم نے ہاتھوں میں ترے قبضہ قضا کا دیکھا
مشتری بھی ہے ترا مشتری اے جانِ جہاں
اس نے جس دن سے ہے تیرا رخ ِ زیبا دیکھا
اپنی آنکھوں سے کئی بار ہے سورج کا
بھی
پِتّہ الفت میں تری میں نے پگھلتا دیکھا
دیکھ کر اس کو ہیں دنیا کے حسیں دیکھ
لئے
کیا بتاؤں کہ ترے چہرہ میں ہے کیا دیکھا
تیری غصہ بھری آنکھوں کو جو دیکھا
میں نئے
حورکی آنکھ میں دوزخ کا نظارا دیکھا
ہلتے دیکھا جو کبھی تیرا ہلال ِابرو
پارہ ہائے جگرِ شمس کو اڑتا دیکھا
ظلم کرتے ہو جو کہتے ہو شفق پھولی ہے
تم نے عاشق کا ہے یہ خونِ تمنا دیکھا
اخبار بدر جلد 8۔ 25فروری 1909ء

اپنا تبصرہ بھیجیں