40۔ کیاسبب میں ہوگیا ہوں اس طرح زار و نزار

کلام
محمود صفحہ73۔77

40۔ کیاسبب میں ہوگیا ہوں اس طرح زار و
نزار

کیاسبب میں ہوگیا ہوں اس طرح زار و
نزار
کس مصیبت نے بنایا ہے مجھے نقشِ جدار
کیوں پھٹا جاتا ہے سینہ جیب عاشق کی
مثال
روز و شب  صبح و مسا رہتا ہوں میں کیوں دلفگار
کیوں تسلی اس دل ِبے تاب کو ہوتی نہیں
کیا سبب اس کا کہ رہتا ہے یہ ہر دم
بے قرار
صحبتِ عیش و طرب اس کو نہیں ہوتی نصیب
درد و غم رنج و الم یاس و قَلَق سے
ہے دو چار
کیا سبب جو خون ہوکر بہہ گیا میرا جگر
بھید کیا ہے میری آنکھیں جو رواں ہیں
سیل وار
زرد ہے چہرہ تو آنکھیں گھس گئیں حلقوں
میں ہیں
جسم میرا ہوگیا ہے خشک ہو کر مثلِ خار
سوچتا رہتا ہوں کیا دل میں مجھے کیا
فکر ہے
جستجو میں کس کی چلاتا ہوں میں دیوانہ
وار
چھوڑے جاتے ہیں مجھے ہوش و حواس و عقل
کیوں
کیوں نہیں باقی رہا دل پر مجھے کچھ
اختیار
کون ہے صیاد میرا کس کے پھندے میں ہوں
مَیں
کس کی افسونی نگاہ نے کر لیا مجھ کو
شکار
مرغِ دل میرا پھنسا ہے کس کے دامِ عشق
میں
کس کے نقشِ پا کے پیچھے اُڑ گیا میرا
غبار
صفحۂ دل سے مٹایا کیوں مجھے احباب
نے
کیوں مرے دشمن ہوئے کیوں مجھ سے ہے
کین و نقار
جو کوئی بھی ہے وہ مجھے سے برسرِ پُرخاش
ہے
ہر کوئی ہوتا ہے آکر میری چھاتی پر
سوار
سر نگوں ہوں مَیں مثالِ سایۂ دیوار
کیوں
پشت کیوں خم ہے ہوا ہوں اس قدر کیوں
زیر بار
ہے بہارِ باغ و گل مثلِ خزاں افسردہ
کُن
ہے جہاں میری نظر میں مثلِ شب تاریک
و تار
ابر باراں کی طرح آنکھیں ہیں میری
اشک بار
ہے گریباں چاک گر میرا تو دامن تار
تار
میں جو ہنستا ہوں تو ہے میری ہنسی بھی
برق وش
جس کے پیچھے پھر مجھے پڑتا ہے رونا
بار بار
مات کرتا ہے مرا دن بھی اندھیری رات
کو
میری شب کو دیکھ کر زلفِ حسیناں شرمسار
میری ساری آرزوئیں دل ہی دل میں مر
گئیں
میرا سینہ کیا ہے لاکھوں حسرتوں کا
ہے مزار
ہوگیا میری تمناؤں کا پودا خشک کیوں
کیا بلا اس پر پڑی  جس ہوا بے برگ وبار
کیوں میں میدانِ تفکر میں برہنہ پا
ہوا
کیوں چلے آتے ہیں دوڑے میری پا بوسی
کو خار
اپنے ہم چشموں کی آنکھوں میں سبک کیوں  ہوگیا
دیدۂ اغیار میں ٹھہرا ہوں کیوں بے
اعتبار
دشتِ غربت ہوں تنہا رہ گیا باحالِ زار
چھوڑ کر مجھ کو کہاں کو چل دئیے اغیار
و یار
کچھ خبر بھی ہے تمہیں مجھ سے یہ سب
کچھ کیوں ہوا
کیوں ہوئے اتنے مصائب مجھ سے آکر ہمکنار
کیا قصور ایسا ہوا جس سے ہوا معتوب
میں
کیا کیا جس پر ہوئے چاروں طرف سے مجھے
پہ وار
اک رخِ تاباں کی الفت میں پھنسا بیٹھا
ہوں دل
اپنے دل سے اور جاں سے اس سے میں کرتا
ہوں پیار
وہ مری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کا
نور ہے
ہے فدا اس شعلہ رو پر میری جاں پروانہ
وار
اُس کا اک اک لفظ میرے واسطے ہےجانفزا
اُس کے اک اک قول سے گھٹیا ہے درِّ
شاہوار
ایک کُن کہنے سے پیدا کردئیے اس نے
تمام
یہ زمیں یہ آسماں یہ دورۂ  لیل و نہار
یہ چمن یہ باغ یہ بُستاں یہ گل یہ پھول
سب
کرتے ہیں اس ماہ رُو کی قدرتوں کو آشکار
ذرّہ ذرّہ میں نظر آتی ہیں اس کی طاقتیں
ہر مکان و ہر زماں میں جلوہ گاہ ِحسنِ
یار
ہر حسیں کو حسن بخشا ہے اُسی دلدار
نے
ہر گل و گلزار نے پائی اُسی سے ہے بہار
ہر نگاہ فتنہ گرنے اُس سے پائی ہے جِلا
ورنہ ہوتی بختِ عاشق کی طرح تاریک و
تار
نور اس کا جلوہ گر ہے ہر در و دیوار
میں
ہے جہاں کے آئنہ  میں منعکس تصویر ِیار
اس کی الفت نے بنایا ہے مکاں ہر نفس
میں
ہر دلِ دیندار اس کے رخ پہ ہوتا ہے
نثار
بلبلیں بھی سر پٹکتی ہیں اُسی کی یاد
میں
گل بھی رہتے ہیں اُسی کی چاہ میں سینہ
فگار
سرو بھی ہیں سروقد رہتے  اُسی کے سامنے
قُمریاں بھی ہیں محبت میں اُسی کی بے
قرار
سب حسینانِ جہاں اُس کے مقابل ہیچ ہیں
ساری دنیا سے نرالا ہے وہ میرا شہریار
اب  تو سمجھے کس کے پیچھے ہے مجھے یہ اضطرار
یاد میں کس ماہ رُو کی ہوں میں رہتا
اشکبار
کس کی فرقت میں ہوا ہوں رنج و غم سے
ہمکنار
ہجر میں کس کی تڑپتا رہتا ہوں لیل و
نہار
کس کے لعلِ لب نے چھینا سب شکیب و اصطبار
کس کی دُزیدہ نگاہ نے لے لیا میرا قرار
کس کے نازوں نے بنایا ہے مجھے اپنا
شکار
کس کے غمزہ نے کیا ہے مثلِ باراں اشکبار
ہائے پر اسکے مقابل میں نہیں مَیں کوئی
چیز
وہ سرا پا نور ہے میں مضغہءتاریک و
تار
اس کی شاں کو عقلِ انسانی سمجھ سکتی
نہیں
ذرہ ذرہ پر ہے اس کو مالکانہ اقتدار
وہ اگر خالق ہے میں ناچیز سی مخلوق
ہوں
ہر گھڑی محتاج ہوں اُس کا وہ ہے پروردگار
پاک ہے ہر طرح کی کمزوریوں سے اس کی
ذات
اور مجھ میں پائے جاتے ہیں نقائص صد
ہزار
منبع ہر خوبی و ہر حسن و ہر نیکی ہے
وہ
میں ہوں میں اپنے نفس کے ہاتھوں سے
مغلوب اور خوار
وہ ہے آ       قا میں ہوں خادم وہ ہے مالک میں غلام
میں ہوں اک ادنیٰ رعایا اور وہ ہے تاجدار
علمِ کامل کا وہ مالک اور میں محرومِ
علم
وہ سراسر نور ہے لیکن ہوں میں تاریک
و تار
اس کی قدرت کی کوئی بھی انتہا پاتا
نہیں
اور پوشیدہ نہیں ہے تم سے میرا حالِ
زار
اپنی مرضی کا ہے وہ مالک تو میں محکوم
ہوں
میری کیا طاقت کہ پاؤں زور سے درگاہ
میں بار
عزت افزائی ہے میری گر کوئی ارشاد ہو
فخر ہے میرا جو پاؤں رتبۂ خدمت گذار
طالبِ دنیا نہیں ہوں طالبِ دیدار ہوں
تب جگر ٹھنڈا ہو جب دیکھو رُخِ تابانِ
یار
کہتے ہیں بہر خریدِ ہوسفؑ ِفرخندہ فال
ایک بڑھیا آئی تھی باحالتِ زار و نزار
ایک گالا روئی کا لائی تھی اپنے ساتھ
وہ
اور یوسف ؑکی خریداری کی تھی امیدوار
وہ تو کچھ رکھتی بھی تھی پر میں تو
خالی ہاتھ ہوں
بے عمل ہوتے ہوئے ہے جستجوئے دستِ یار
ہوں غلامی میں مگر ہے عشق کا دعویٰ
مجھے
چاکروں میں ہوں مگر ہے خواہشِ قرب و
جوار
پر وہ عالی بارگہ ہے منبع فضل و کرم
کیا تعجب ہے جو مجھ کو بھی بنادے کامگار
بات کیا ہے گر وہ میری آرزو پوری کرے
دے مری جاں کو تسلی دے میرے دل کو قرار
ہو کے بے پردہ وہ میرے سامنے آئے نکل
میرے دل سے دور کردے ہجر و فرقت کا
غبار
جس قدر رستہ میں روکیں ہیں ہٹادے وہ
انہیں
جس قدر حامل ہیں پردے ان کو کردے تار
تار
بے ملے اس کے تو جینا بھی ہے بدتر موت
سے
ہے وہی زندہ جسے اس کا ملے قرب و جوار
کور ہیں آنکھیں جنھوں نے شکل وہ دیکھی
نہیں
گوش کَر ہیں جو نہیں سنتے کبھی گفتارِ
یار
آرزو ہے گر فلاح و کامیابی کی تمھیں
اس شہ خوباں پہ کردو بے تامل جاں نثار
کھول کر قرآں پڑھو اس کے کلامِ پاک
کو
دل کے آئینہ پہ تم اک کھینچ لو تصویر
یار
شوق ہو دل میں اگر کوئی تو اس کی دید
کا
کان میں کوئی صدا ٓئے نہ جز گفتارِ
یار
ہر رگ و ریشہ میں ہو اس کی محبت جاگزیں
ہر کہیں آئے نظر نقشہ وہی منصور وار
اپنی مرضی چھوڑ دو تم اس کی مرضی کے
لیے
جو ارادہ وہ کرے تم بھی کرو وہ اختیار
عشق میں اس کے نہ ہو کوئی ملونی جھوٹ
کی
جو زباں پر ہو وہی اعمال سے ہو آشکار
پاک ہو جاؤ کہ وہ شاہِ جہاں بھی پاک
ہے
جو کہ ہو ناپاک دل اس سے نہیں کرتا
وہ پیار
چھوڑ دو رنج و عداوت ترک کردو بغض و
کیں
پیار و الفت کو کرو تم جان و دل سے
اختیار
چھوڑ دو غیبت کی عادت بھی کہ یہ اک
زہر ہے
روحِ انسانی کو ڈس جاتی ہے یہ مانندِ
مار
کبر کی عادت بھلاؤ انکساری سیکھ لو
جہل کی عادت کو چھوڑو علم کر لو اختیار
دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو دامنِ تقویٰ
کو تم
ایک ساعت میں کرادیتا ہے یہ دیدارِ
یار
کہتے ہیں پیاروں کا جو کچھ ہو وہ آتا
ہے پسند
اِس لیے جو کوئی اُس کا ہو کرو تم اس
سے پیار
اُس کے ماموروں کو رکھو تم دل و جاں
سے عزیز
اُس کے نبیوں کے رہو تم چاکر و خدمت
گذار
اُس کے حکموں کو نہ ٹالو ایک دم کے
واسطے
مال و دولت جان و دل ہر شے کرو اُس
پر نثار
ساری دنیا میں کرو تم مشتہر اُس کی
کتاب
تاکہ ہوں بیدار وہ بندے جو ہیں غفلت
شعار
ابتداء میں لوگ گو پاگل پکاریں گے تمھیں
اور ہوں گے در پئے ایذا دہی دیوانہ
وار
گالیاں دیں گے تمھیں کافر بتائیں گے
تمھیں
جس طرح ہوگا کریں گے وہ تمھیں رسوا
وخوار
سنگ باری سے بھی اُن کو کچھ نہ ہوگا
اجتناب
بے جھجک دکھلائیں گے وہ تم کو تیغِ
آبدار
پر خدا ہوگا تمہارا ہر مصیبت    میں معین
شر سے دشمن کے بچائے گا تمہیں لیل ونہار
اُس کی الفت میں کبھی نقصاں اٹھاؤ گے
نہ تم
اُس کی الفت میں کبھی ہو گے نہ تم رسوا
و خوار
امتحاں میں پورے اترے گر تو پھر انعام
میں
جامِ وصل یار پینے کو ملیں گے بار بار
تم پہ کھولے جائیں گے جنت کے دروازے
یہیں
تم پہ ہو جائیں گے سب اسرارِ قدرت آشکار
درد میں لذت ملے گی دکھ میں پاؤ گے
سرور
بے قراری بھی اگر ہوگی تو آئے گا قرار
سرنگوں ہوجائیں گے دشمن تمہارے سامنے
ملتجی ہوں گے  برائے عفو وُہ باحالِ زار
الغرض یہ عشقِ مولیٰ بھی عجب اک چیز
ہے
جو گداگر کو بنا دیتا ہے دم میں شہر
یار
بس یہی اک راہ ہے جس سے کہ ملتی ہے
نجات
بس یہی ہے اک طریقہ جس سے ہو عزّ و
وقار
اخبار الحکم جلد 16 ۔7جنوری 1912ء

اپنا تبصرہ بھیجیں