44۔ نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبو باقی

 کلام
محمود صفحہ83

44۔
نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ
سبو باقی

نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبو
باقی
بس ایک دل میں رہے تیری آرزو باقی
پڑی ہے کیسی مصیبت یہ غنچۂ دیں پر
رہی وہ شکل وشباہت نہ رنگ وبوباقی
کہاں وہ مجلس ِعیش و طرب وہ
رازونیاز
بس اب تو رہ گئی ہے ایک گفتگو باقی
جو پوچھ لو کبھی اتنا کہ آرزو کیا
ہے
رہے نہ دل میں مرے کوئی آرزو باقی
ملا ہوں خاک میں باقی رہا نہیں کچھ
بھی
مگر ہے دل میں مرے اُن کی جستجو باقی
وہ گاؤں گا تری تعریف میں ترانۂ
حمد
رہے گا ساز ہی باقی نہ پھر گلُو باقی
گیا ہوں سوکھ غمِ ملت ِمحمدؐ میں
رہا نہیں ہے مرے جسم میں لہو باقی
قُرونِ اولیٰ کے مسلم کا نام باقی
ہے
نہ اُس کے کام ہیں باقی نہ اس کی
خو باقی
خدا کے واسطےمُسلم ذرا تو ہوش میں
آ
نہیں تو تیری رہے گی نہ آبروباقی
شکائتیں تھیں ہزاروں بھری پڑی دل
میں
رہی نہ ایک بھی پر اُن کے روبرو باقی
اخبار الفضل جلد 1 ۔27اگست 1913ء

اپنا تبصرہ بھیجیں