64۔ کیوں غلامی کروں شیطاں کی خدا کا ہو کر

کلام
محمود صفحہ112۔113

64۔ کیوں غلامی کروں شیطاں کی خدا کا ہو
کر

کیوں غلامی کروں شیطاں کی خدا کا ہو
کر
اپنے ہاتھوں سے برا کیوں بنوں اچھا
ہو کر
مدعا تو ہے وہی جو رہے پورا ہو کر
التجا ہے وہی جو لَوٹے پذیرا ہو کر
درد سے ذکر ہوا پیدا ،ہوا ذکر سے جذب
میری بیماری لگی مجھ کو مسیحا ہو کر
رہ گیا سایہ سے محروم ہوا بے برکت
سرو نے کیا لیا احباب سے اونچا ہوکر
جب نظر میری پڑی ماضی پہ دل خون ہوا
جان بھی تن سے مری نکلی پسینہ ہوکر
چاہیے کوئی تو تقریب ترحم کے لیے
میں نے کیا لینا ہے اسے دوستواچھا ہوکر
نہ ملیں تو بھی دھڑکتا ہے ملیں تو بھی
اے دل
تجھ کو کیا بیٹھنا آتا نہیں نچلا ہوکر
حسنِ ظاہرپہ نہ تُوبھول کہ سو حسرت
و غم
چھوڑجائے گا بس آخر یہ تماشا ہوکر
اس کی ہر جنبش ِلب کرتی ہے مردے زندہ
حشر دکھلائے گا اب کیا ہمیں برپا ہوکر
دل کو گھبرا نہ سکے لشکرِ افکار و ہموم
بارک اللہ !لڑاخوب ہی تنہا ہو کر
ہائے وہ شخص کہ جو کام بھی کرنا چاہے
دل میں رہ جائے وہی اس کے تمنا ہوکر
ایسے بیمار کا پھر اور ٹھکانا معلوم
دےسکےتم نہ شفا جس کو مسیحاؑ ہوکر
وہ غنی ہے پہ نہیں اس کو یہ ہرگز بھی
پسند
غیر سے تیرا تعلق رہے اس کا ہوکر
ذلت ونکبت وخواری ہوئی مسلم کےنصیب
دیکھئے اور ابھی رہتا ہے کیاکیاہوکر
داغِ بدنامی اٹھائے گا وہ جو حق کی
خاطر
آسماں پروہی چمکے گا ستاراہوکر
غیر ممکن ہے کہ تُو مائدہ سلطاں پر
کھاسکے گا خوانِ ھدایت سگِ دنیا ہوکر
قلبِ عاصی جو بدل جائے تو کیوں پاک
نہ ہو
مے اگر طیّب وصافی بنے سرکہ ہوکر
حق نے محمود ترا نام ہے رکھا محمود
چاہیے تجھ کو چمکنایدِبیضا ہوکر
اخبار الفضل جلد 11 ۔4جنوری 1924ء

اپنا تبصرہ بھیجیں