79۔ مرے ہمراز بے شک دل محبت کا ہے پیمانہ

کلام
محمود صفحہ130۔131

79۔ مرے ہمراز بے شک دل محبت کا ہے پیمانہ

مرے ہمراز بے شک دل محبت کا ہے پیمانہ
ہے اس کا حال رندانہ تواس کی چال مستانہ
مئے جاں بخش بٹتی ہے جہاں ہے یہ وہ
میخانہ
مگر وہ کیا کرے جس کا دل ہو جائے ویرانہ
نظر آئیں تمنّاؤں کی چاروں سمت میں
قبریں
مرے ہمراز کہتے ہیں کہ اک شے نور ہوتی
ہے
جب آتی ہے تو تاریکی معاً کافور ہوتی
ہے
علاجِ رنج و غم ہائے دلِ رنجور ہوتی
ہے
طبیعت کتنی ہی افسردہ ہو مسرور ہوتی
ہے
مگر ہم کیا کریں جن کے کہ دن بھی ہو
گئے راتیں
مرے ہم راز آنکھیں بھی خدا کی ایک نعمت
ہیں
ہزاروں دولتیں قربان ہوں جس پر وہ دولت
ہیں
بِنائے جسم میں سچ ہے بابِ علم و حکمت
ہیں
مثالِ خضر ہم راہِ طلب گارِ زیارت ہیں
مگر وہ منہ نہ دکھلائیں تو پھر ہم کیا
کریں آنکھیں
وہ خوش قسمت ہیں جو گر پڑ کے اس مجلس
میں جا پہنچے
کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے
جا لپٹے
غرض جس طرح بن آیا مطالب اُن سے منوائے
مرے ہم راز !پر وہ پر شکستہ کیا کریں
جن کے
ہوا میں اڑ گئے نالے ،گئیں بیکار فریادیں
بجا ہے ساری دنیا میں اک لفظِ میں کا
ہے نشہ
جدھر دیکھو چمک اس کی جدھر دیکھو ظہور
اس کا
مرے ہم راز سب دنیا کا کام اس”
مَیں” پہ ہے چلتا
مگر مَیں بھی تبھی ہوتی ہے جب ہو سامنا
تُو کا
بھلا وہ کیا کریں” میں "کو
جو ان کی یاد سے اُتریں
دلِ مایوس سینہ میں اندھیرا چاروں جانب
میں
نہ آنکھیں ہیں کہ رہ پائیں نہ پَر ہیں
جن سے اُڑ جائیں
نہ احساسِ انانیت کہ اس کے زور سے پہنچیں
مرے دِلدار ہم پر بند ہیں سب وصل کی
راہیں
سِوااس کے کہ اب خود آپ ہی کچھ لُطف
فرمائیں
ہمارے بے کسوں کا آپ کے بِن کون ہے
پیارے
نظر آتے ہیں مارے غم کے اب تو دِن کو
بھی تارے
نہیں دِل اپنے سینوں میں دھرے ہیں بلکہ
انگارے
پُھنکے جاتے ہیں سَر سے پاؤں تک ہم
ہجر کے مارے
بس اب تو رحم فرمائیں چلے آئیں چلے
آئیں
اخبار الفضل جلد 14 ۔ 28ستمبر1926ء

اپنا تبصرہ بھیجیں