85۔ میں تمھیں جانے نہ دوں گا

کلام
محمود صفحہ138۔140

85۔ میں تمھیں جانے نہ دوں گا

میں تمہیں جانے نہ دوں گا
اہل وفا کی زندگی کا ایک پہلو
ذیل میں ایک نظم ہے جس کی محرک ایک انگریزی نظم ہوئی ہے اس میں وفا کے اس پہلو
کو جو ذیل میں بیان کیا گیا ہے ۔نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کیا گیا تھا ۔ اس نظم کا
میرے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اسی وقت مغرب و عشاء کے درمیان کے عرصہ میں یہ نظم کہی
گئی ۔ گو اس نظم کا طریق اردو کے عام متداول طریقوں کے خلاف ہے ۔ لیکن اب چونکہ اس
کی رَو چل گئی ہے۔ اس لئے میں نے بھی خیالات کی رَو کے ماتحت اسے معیوب نہیں سمجھا
۔ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ کس طرح مخالف حالات میں وفادار محب اپنے محبوب کی ناراضگی
کو برداشت کرتا ہے اور اس کی ناراضگی سے چڑ کر علیحدہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ محبت کی باریک
در باریک راہوں سے چل کر اس کے دل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ
میرا رب مجھ سے ناراض نہیں ہوسکتا ۔ اور پہلے اس کی ناراضگی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں
دیکھتا لیکن پھر اس کا دل عاشقانہ بے اعتباری سے کام لیتا ہے اور سنجیدگی سے اس امر
کو ظاہر کرنے لگتا ہے کہ اس کے تعلقات ہی ایسے ہیں کہ وہ جدا نہیں ہوسکتا۔مگر اس اصرار
کی حالت میں پھر اس کے دل میں اپنی محبت کے جذبات ترقی کرکے اسے شبہ میں ڈال دیتے ہیں
اور وہ اپنی خیالی جنت میں کھڑا ہو کر ناراضگی کو صرف بناوٹ خیال کرنے لگتا ہے ۔مگر
عاشقانہ بیتابی اسے اس حالت پر بھی کھڑا رہنے نہیں دیتی اور پھر ناراضگی کو حقیقی سمجھنے
لگتا ہے اسی طرح اس کے خیالات کئی پلٹے کھاتے ہیں اور آخر وہ والہانہ طور پر معشوق
سے اپیل کرتا ہے کہ اگر کچھ وجہ بھی ہے تو جانے دو اور اپنے قرب سے مجھے محروم نہ کرو
۔ کیا خدا تعالیٰ کی سی رحیم ہستی اس التجا کا انکار کرسکتی ہے ؟ہر گز نہیں۔
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
کیا محبت جائے گی یوں
کیا پڑا روؤں گا میں خوں
یاد کر کے چشم مے گوں
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
خواہ تم کتنا ہی ڈانٹو
خواہ تم کتنا ہی کوسو
خواہ تم کتنا بھی جھڑکو
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
کیا ہوئی الفت ہماری
کیا ہوئی چاہت تمہاری
کھا چکا ہوں زخم کاری
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
مجھ سے تم نفرت کرو گے
سامنے میرے نہ ہوگے
ساتھ میرا چھوڑ دو گے
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
دل میں رکھوں گا چھپا کر
آنکھ کی پتلی بنا کر
اپنے سینے سے لگا کر
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
اس قدر محنت اٹھا کر
دولتِ راحت لٹا کر
تم کو پایا جاں گنوا کر
اب تو میں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
آسماں شاھد نہیں کیا
میرے اقرار وفا کا
اے مری جاں میرے مولیٰ
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
تم ہومیری راحتِ جاں
تم سے وابستہ ہے ارماں
زور سے پکڑوں گا داماں
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
کیا سناتے ہو مجھے تم
کیوں ستاتے ہو مجھےتم
بس بناتے ہو مجھے تم
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
سر کو پاؤں پر دھروں گا
آنکھیں تلووں سے ملوں گا
نقشِ پا کو چوم لوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
کیا ملاقاتوں کی راتیں
تھیں جو مجھ کو شب براتیں
یوں ہی ہو جائیں گی باتیں
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میری حالت پر نظر کر
عیب سے غضِ بصر کر
ڈھیر ہو جاؤں گا مر کر
پر تجھے جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
ٹوٹ جائیں کس طرح سے
عہد کے مضبوط رشتے
اس لیے ہم کیا ملے تھے
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
خواہ مجھ سے روٹھ جاؤ
منہ نہ سالوں تک دکھاؤ
یاد سے اپنی بھلاؤ
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
تم تو میرے ہو چکے ہو
تم مرے گھر کے دیے ہو
میرے دل میں بس رہے ہو
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
آؤ آؤ مان جاؤ
مجھ کو سینے سے لگاؤ
دل سے سب شکوے مٹاؤ
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
میں تمھیں جانے نہ دوں گا
اخبار الفضل جلد 15 ۔ 10فروری 1938ء

اپنا تبصرہ بھیجیں