91۔ حضرت سیدہ سارہ بیگم کی وفات پر

کلام
محمود صفحہ149

91۔ حضرت سیدہ سارہ بیگم کی وفات پر

کر رحم اے رحیم مرے حالِ زار پر
ذیل میں چند اشعار دعائیہ و اظہار حال درج ہیں ۔ اس کےآخر میں جس احساس کا
ذکر ہے اس کے متعلق اس نظم کے بعد ایک رویاء دیکھی جس سے دل کو ایک حد تک تسلی
ہوئی ۔ گو رویاء اس رنگ میں نہ تھی کہ اس سے
لیطمئن قلبی کا مفہوم پورا ہوتا ہو۔ لیکن پھر بھی دعا کی قبولیت
کا ایک ظاہری نشان ضرور تھی۔ مگر میں رویاء کےمعاملہ کو اپنے مضمون کے تتمہ کے لئے
اٹھا رکھتا ہوں۔ جسے نمبر ۲ کی صورت میں انشاء اللہ بعد میں کسی وقت شائع کروں گا
۔ اس وقت صرف اس مختصر نوٹ کے ساتھ اس دعائیہ نظم کو شائع کرتا ہوں ۔
الفضل 9 جولائی 1933ء
حضرت سیدہ سارہ بیگم کی وفات پر
کر رحم اے رحیم مرے حالِ زار پر
زخمِ جگر پہ دردِ دلِ بے قرار پر
مجھ پر کہ ہوں عزیزوں کے حلقہ میں مثلِ
غیر
اِس بے کس و نحیف و غریب الدیار پر
جس کی حیات اِک ورقِ سوز و ساز تھی
جیتی تھی جو غذائے تمنائے یار پر
مقصود جس کا علم و تقٰی کا حصول تھا
رکھتی تھی جو نگہ نگہ لطفِ یار پر
تھی ماحصل حیات کا اک سعئ نا تمام
کاٹی گئی غریب حوادث  کی دھار پر
دل کی امیدیں دل ہی میں سب دفن ہو گئیں
پائے امید ثبت رہا انتظار پر
ہاں اے مغیث سن لے مری التجا کو آج
کر رحم اس وجودِ محبت شعار پر
اس مے گسار ِبادۂ الفت کی روح پر
اُس بوستانِ عشق و وفا کی مزار پر
ہاں اُس شھیدِ علم کی تُربت پہ کر نزول
خوشیوں کا باب کھول غموں کی شکار پر
میری طرف سے اس کو جزا ہائے نیک دے
کر رحم اے رحیم دلِ سوگوار پر
حاضر نہ تھا وفات کے وقت اے  مرے خدا
بھاری ہے یہ خیال دلِ ریش و زار پر
ڈرتا ہوں وہ مجھے نہ کہے بازبانِ حال
جاؤں کبھی دعا کو جو اس کے مزار پر
جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر
حضور کی حرمِ محترمہ جنہوں نے 1933میں وفات پائی۔اناللہ و انا الیہ راجعون
اخبار الفضل جلد 21 ۔ 19جولائی 1934ء

اپنا تبصرہ بھیجیں