92۔ آہ پھر موسم بہار آیا

کلام
محمود صفحہ150۔152

92۔ آہ پھر موسم بہار آیا

آہ پھر موسم بہار آیا
دل میں میرے خیال ِیار آیا
لالہ و گل کو دیکھ کر محمود
یاد مجھ کو وہ گلعذار آیا
زخمِ دل ہو گئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
خوں رلاتا تھا لالہ زار کا رنگ
مجلسِ یار کی بہار کا رنگ
تازہ کرتے تھے یاد اس کی پھول
یاد آتا تھا گلعذار کا رنگ
لوگ سب شادمان و خوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
سبزۂ گیاہ کا کہوں کیا حال
چپہ چپہ پہ ڈالتا تھا جال
مستِ نظارۂ جمال تھے سب
آنکھیں دنیا کی ہورہی تھیں لال
زخم دل ہو گئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
میں وہاں ایک اور خیال میں تھا
کیا کہوں میں نرالے حال میں تھا
سبزہ اک عکسِ زلفِ جاناں ہے
یہ تصور ہی بال بال میں تھا
لوگ سب شادمان و خوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
ندیاں ہر طرف کو بہتی تھیں
قلبِ صافی کا حال کہتی تھیں
آبشاروں کی شکل میں گر کر
صدمۂ افتراق سہتی تھیں
زخمِ دل ہو گئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
دیوداروں کی ہر طرف تھی قطار
یاد کرتا تھا دیکھ کر قدِیار
لوگ دل کر رہے تھے ان پہ نثار
جان سے ہو رہا تھا میں بیزار
لوگ سب شادمان و خوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
اَبر آتے تھے اور جاتے تھے
دل کو ہر اک کے خوب بھاتے تھے
بجلیوں کی چمک میں مجھ کو نظر
جلوے اس کی ہنسی کے آتے تھے
زخم دل ہو گئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
شاخِ گل پر ھزار بیٹھی تھی
کانپتی بے قرار بیٹھی تھی
نغمہ سن سن کے اسکے سب خوش تھے
وہ مگر دل فگار بیٹھی تھی
لوگ سب شادمان و خوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
کیسی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں
ناز و رعنائی سے مچلتی تھیں
اُن کی رفتار کی دلا کر یاد
دل مرا چٹکیوں میں مَلتی تھیں
زخمِ دل ہوگئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
تھے طَرَب سے درخت بھی رقصاں
گویا قسمت پہ اپنی تھے نازاں
پتے پتے کے پاس جا کر میں
سونگھتا تھا بوئے مَہِ کِنعاں
لوگ سب شادمان و خوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
جلوے اس کے نمایاں ہر شے میں
سُر اسی کی تھی پیدا ہر لَے میں
رنگ اُسی کا چھلک رہا تھا آہ
کفِ ساقی میں ساغرِ مے میں
زخمِ دل ہوگئے ہرے میرے
ہر چمن سے میں اشکبار آیا
اس کے نزدیک ہو کے دور بھی تھا
دلِ اُمیدوار چور بھی تھا
نارِ فرقت میں جل رہا تھا میں
گو پسِ پردہ اِک ظہور بھی تھا
لوگ سب شادمان وخوش آئے
ایک میں تھا کہ سوگوار آیا
دیکھئے کب وہ منہ دکھاتا ہے
پردہ چہرہ سے کب اٹھاتا ہے
کب مرے غم کو دور کرتا ہے
پاس اپنے مجھے بلاتا ہے
ہنس کے کہتا ہے دیکھ کر مجھ کو
دیکھو وہ میرا دل فگار آیا
میں یونہی اس کو آزماتا تھا
پاک کرنے کو دل جلاتا تھا
عشق کی آگ تیز کرنے کو
منہ چھپاتا کبھی دکھاتا تھا
میری خاطر اگر یہ تھا بے چین
کب مجھے اس کے بِن قرار آیا
آہ پھر موسم بہار آیا
کئی سال ہوئے پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے ایک کاغذ پر کچھ مصرعے اور شعر امۃ الحیٔ
مرحومہ کے لکھے ہوئے ملے تھے۔ نہ معلوم ان کے تھے یا کسی کے شعر پسند کرکے نقل کئے
تھے ۔ ان میں سے ایک شعر پر میں نے ایک نظم کہی تھی جو شائع ہوچکی ہے ۔ ایک اور شعر
پر چار بند کہے تھے لیکن وہ نظم نامکمل پڑی رہی۔ 1929ء کے ڈلہوزی کے سفر میں وہ بند
لکھے گئے اور اس کے بعد طبیعت اس طرف سے ہٹ گئی ۔ کئی دفعہ کوشش کی لیکن مضمون بالکل
بند معلوم ہوتا تھا ۔ اس دفعہ پالم پور میں اس طرف طبیعت میں رغبت پیدا ہوئی ۔ اور
میں نے اس نظم کو پورا کیا۔
اب مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ کون سا شعر یا مصرع تھا ۔جو امۃ الحیٔ مرحومہ
کا لکھا ہوا مجھے ملا تھا ۔ نہ یہ کہ اسے میں نے پورا نقل کیا ہے یا تصرف کے ساتھ اسے
استعمال کیا ہے۔ بہر حال اس قدر یقینی بات ہے کہ ان کا منتخب شدہ یا کہا ہوا شعر غالباً
بہ تصرف اس نظم کے پہلے بند میں موجود ہے اور وہی اس نظم کا محرک ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم
کرے اس مرنے والی پر اور اپنے قرب میں جگہ دے ۔ اس نظم میں سالک کے قرب کی اس کیفیت
کو بیان کیا گیا ہے۔ جب اسے معشوق کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا ۔ جب ہر ذرہ اسے اپنی
طرف متوجہ کرتا اور پھر اس توجہ کو حسنِ ازل کی طرف منتقل کردیتا ہے جب ہر اچھی چیز
اسے دردِ ہجر سے آشنا کرتی اور ہر جلوۂ حسن جدائی کی تکلیف کو تیز کردیتا ہے۔ جب
آرام اس کے لئے مصیبت اور خوش اس کے لئے افسردگی پیدا کرنے کا موجب ہوجاتی ہے ۔ وہ
ہر شے میں خدا تعالےٰ کو دیکھتا ۔ لیکن پھر اس سے اپنے کو دور پاتا ہے۔ درحقیقت یہی
اس کی پہلی منزل کی آخری گھڑیاں ہوتی ہیں ۔ اس حالت کو لمبا اس کے دل کی صفائی کے
لئے کیا جاتا ہے  ورنہ دراصل اس وقت دونوں طرف
آگ برابر لگی ہوئی ہوتی ہے ۔ خدا کی محبت اس کے بندہ کے دل پر گرنے کے لئے اسی طرح
بے چین ہورہی ہوتی ہے جس طرح کہ بندہ کا عشق اس کے دل کو بے تاب کررہا ہوتا ہے۔
اخبار الفضل جلد21 ۔25جولائی 1934ء

اپنا تبصرہ بھیجیں