103۔ یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر

کلام
محمود صفحہ165

103۔ یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا
نہ کر

یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا
نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ
کر
کیا لبِ دریا مری بے تابیاں کافی نہیں
تُوجگر کوچاک کر کےاپنے یوں تڑپا نہ
کر
دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے
زیب
آسماں پر بیٹھ کرتُو یوں مجھے دیکھا
نہ کر
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا
عیب ہے
اس طرح تُو چاند سے اے میری جاں پردہ
نہ کر
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے
پاس
آگے آگے چاند کی مانند تُو بھاگا نہ
کر
اے شعاع ِ نور یوں ظاہر نہ کر میرے
عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا
نہ کر
ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز!
عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ
کر
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا
نہ کر
یُوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا
نہ کر
سمندرکے کنارے چاند کی سیر نہایت پر
لطف ہوتی ہے ۔ اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کے لئے گئے ۔ میری چھوٹی
بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، میری تینوں لڑکیاں ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ
، امۃ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، امۃ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ ، امۃ الودود
مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے۔رات کے گیارہ بجے چاند
سمندر کی لہروں میں ہلتا ہوا بہت ہی بھلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور
بھی اچھا معلوم دیتا تھا ۔ جُوں جُوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پھرتے تھے لطف بڑھتا
جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی تھی ۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر ٹہلنے کے بعد
ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان
چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے ساتھ عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ
تعالیٰ بھی جاکھڑے ہوئے اور پھر عزیزہ امۃ العزیز بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ بھی وہاں
چلی گئی ۔ اب  صرف میں ،عزیزہ امۃ الرشید بیگم
سلمہا اللہ تعالیٰ اور عزیزہ امۃ الودود مرحومہ پانی کے کنارے پر کھڑے رہ گئے ۔ میری
نظر ایک بار پھر آسمان کی طرف اٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں
عجیب انداز سے اپنی چمک دکھا رہا تھا ۔ اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات میری
آنکھوں میں پھر گئی جب ایک عارف باللہ محبوب ربانی نے چاند کو دیکھ کر ایک سرد آہ
کھینچی تھی اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا۔
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ
یار کا
پہلے تو تھوڑی دیر میں یہ شعر پڑھتا
رہا پھر میں نے چاند کو مخاطب کرکے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود
کہے جو یہ ہیں :۔
یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا
نہ کر
حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ
کر
کیا لبِ دریا مری بے تابیاں کافی نہیں
تو جگر کو چاک کرکے اپنے یوں تڑپا نہ
کر
اس کے بعد میری توجہ براہ راست اس محبوب
حقیقی کی طرف پھر گئی جس کے حسن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر میں اشارہ
کیا گیا ہے اور میں نے اسے مخاطب کرکے چند شعر کہے جو یہ ہیں:۔
دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے
زیب
آسمان پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا
نہ کر
بے شک چاند میں سے کسی وقت اللہ تعالیٰ
کا حسن نظر آتا ہے مگر ایک عاشق کے لئے وہ کافی نہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب
چاند میں سے اسے نہ جھانکے بلکہ اس کے دل میں آئے اس کے عرفان کی آنکھوں کے سامنے
قریب سے جلوہ دکھائے ، اس کے زخمی دل پر مرہم لگائے اور ا س کے دکھ کی دوا خود ہی بن
جائے کہ اس دواکے سوا اس کا کوئی علاج نہیں مگر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس محبوب حقیقی
کا عاشق چاند بھی اس کا جلوہ نہیں دیکھتا ۔ چاند میں ایک پھیکی ٹکیہ سے زیادہ کچھ بھی
تو نظر نہیں آتا ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس محبوب نے اپنا چہرہ اس سے بھی چھپا رکھا
ہے کہ کہیں اس میں سے اس کا عاشق اس کا چہرہ نہ دیکھ لے اور وہ کہتا ہے کہ کاش چاند
کے پردہ پر ہی اس کا عکس نظر آجائے اور میں نے کہا۔
عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا
عیب ہے
اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ
نہ کر
پھر میری نظر سمندر کی لہروں پر پڑی
جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوا اور چاند کا عکس اور پرے ہوگیا
۔ میں اور بڑھا اور عکس اور دور ہوگیا اور میرے دل میں ایک درد اٹھا اور میں نے کہا
۔ بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے کوشش
کرتا ہے مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں ، اس کی عبادتیں ، اس کی
قربانیاں ، اس کا ذکر ، اس کی آہیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں کیونکہ اللہ تعالےٰاس
کے استقلال کا امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے ۔ کئی تھوڑے
دل والے مایوس ہوجاتے ہیں اور کئی ہمّت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی
مراد پوری ہوجاتی ہے مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مرجھایا
رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے ۔ چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے
چلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی
جاتی ہے مگر چاند کا عکس آگے ہی آگے بھاگا چلا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے
پاس
آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ
کر
میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں
کو سمجھانے کے لئے ان سے کہا کہ آؤ ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں چلو اور میں انہیں
لے کر کوئی پچاس ساٹھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا دیکھو چاند کا عکس کس
طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالےٰ کی ملاقات
کے لئے بیکار جاتی ہیں اور وہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ پیچھے ہٹ جاتا ہے
اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست
کرے اور اسی کے کرم کو چاہے تاکہ وہ اس ابتلاء کے سلسلہ کو بند کردے اور اپنی ملاقات
کاشرف اسے عطا کرے۔
ا س کے بعد میری نظر چاند کی روشنی
پر پڑی، کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیر کے لئے سمندر پر آگئے ، ہوا
تیز چل رہی تھی لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اڑی جارہی تھیں اور وہ زور سے ان
کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں ۔ وہ لوگ گو ہم سے دور تھے مگر میں لڑکیوں کو لے
کر اور دور ہوگیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے
وہاں پردہ بھی اٹھا دیتی ہے اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ
کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کردیتے ہیں اور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ
تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا
اے شعاعِ نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا
نہ کر
اس کے بعد میری نظر بندوں کی طرف اٹھ
گئی اور میں نے سوچا کہ محبت جو ایک نہایت پاکیزہ جذبہ ہے اسے کس طرح بعض لوگ ضائع
کردیتے ہیں اور اس کی بے پناہ طاقت کو محبوبِ حقیقی کی ملاقات کے لئے خرچ کرنے کی جگہ
اپنے لئے وبالِ جان بنالیتے ہیں اور میں نے اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز
عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ
کر
پھر میری نگاہ سمندی کی لہروں کی طرف
اٹھی جو چاند کی روشنی میں پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی نظر آتی تھیں اور میری نظر سمندر
کے اس پار ان لوگوں کی طرف اٹھی جو فرانس کے میدان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں
ہر روز اپنی جانیں دے رہے تھے اورمیں نے خیال کیا کہ ایک وہ بہادر ہیں جو اپنے ملکوں
کی عزت کے لئے یہ قربانیاں کررہے ہیں ،ایک ہندوستانی ہیں جن کو اپنی تن آسانیوں سے
ہی فرصت نہیں اور مجھے اپنی مستورات کا خیال آیا کہ وہ کس طرح قوم کا بے کار عضو بن
رہی ہیں اور حقیقی کوشش اور سعی سے محروم ہوچکی ہیں ۔ کاش کہ ہمارے مردوں اور عورتوں
میں بھی جوشِ عمل پیدا ہو اور نہیں یہ احساس ہو کہ آخر وہ بھی تو انسان ہیں جو سمندر
کی لہروں پر کودتے پھرتے ہیں اور اپنی قوم کی ترقی کے لئے جانیں دے رہے ہیں جو میدانوں
کو اپنے خون سے رنگ رہے ہیں اور ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے مرجانے سے ہمارے
پسماندگان کا کیا حال ہوگا اور میں نے کہا۔
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پرواہ
نہ کر
جب میں نے یہ شعر پڑھا میری لڑکی امۃ
الرشید نے کہا ابا جان دیکھیں آپا دُودی کو کیا ہوگیا ہے ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے
۔ اس نے کہا اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگ گیا ہے ۔ میں نے پوچھا دُودی تم کو کیا ہوا
ہے اس نے جیسے بچیاں کہا کرتی ہیں کہا کچھ نہیں اور ہم سمندر کے پانی کے پاس سے ہٹ
کر باقی ساتھیوں کے پاس آگئے اور وہاں سے گھر واپس چل پڑے ۔
امۃ الودود کی وفات کے بعد میں یہی
شعر پڑھ رہا تھا کہ صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ امۃ الودود نے مجھ سے ذکر کیا کہ شاید
چچا ابا نے یہ شعرمیرے متعلق کہا تھا تب میں نے مرحومہ کے کانپنے کی وجہ کو سمجھ لیا
۔ وہ امتحان دے چکی تھی اور تعلیم کا زمانہ ہونے کے بعد اس کے عمل کا زمانہ شروع ہوتا
تھا ۔ اس کی نیک فطرت نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ میں اسے کہہ رہا ہوں کہ اب تم کو عملی
زندگی میں قدم رکھنا چاہیئے اور ہر طرح کے خطرات برداشت کرکے اسلام کے لئے کچھ کرکے
دکھانا چاہیے۔
خدا کی قدرت عمل میں کامیابی کا منہ
دیکھنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔ موت میں زندگی اللہ تعالیٰ نے اسے دے دی وہ قادر ہے
جس طرح چاہے اسے زندگی بخش دیتا ہے ۔
ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی
جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا
نہ کر
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے
ہیں
اُذکُرُوا
مَوتٰکُم بالخَیر
(ابوداؤد کتاب الادب باب فی النھی عن
سَبِّ الموتیٰ میں یہ الفاظ آئے ہیں ۔”اُذْکُرُوْا مَحَاسِنِ مَوْتَاکُمْ وَ
کُفُّوْا عَنْ مَسَاوِیْھِم” )
مُردوں کا نیک ذکر قائم رکھو اسی لئے
میں نے اس واقعہ کا ذکر کردیا ہے کہ اس سے مرحومہ کی سعید طبیعت کا اظہار ہوتا ہے کس
طرح اس نے اس شعر کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھا حالانکہ بہت ہیں جو نصیحت کو سنتے ہیں
اور اندھوں کی طرح اس پر سے گزر جاتے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔
اس موقع پر ایک اور واقعہ مرحومہ کا
مجھے یاد آگیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس طرح نصیحت پر فوراً عمل کرنے کا احساس
تھا اور میرے لفظوں پر وہ کس طرح کان رکھتی تھی ۔ میں نے سفر میں دیکھا کہ عزیز منصور
احمد سلمہ اللہ تعالیٰ جرمن ریڈیو کی خبریں شوق سے سنا کرتے تھے مجھ پر یہ اثر ہوا
کہ شاید وہ ان خبروں کو زیادہ درست اور زیادہ سچا سمجھتے ہیں ۔ مجھے یہ بات کچھ بری
معلوم ہوئی ۔ میری بیوی اور لڑکیاں ایک کمرہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں وہاں آیا اور
میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون ظالم ہے اور
کون مظلوم مگر اس وقت تک جو ہمارا علم ہے وہ یہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی میں دنیا
کی بھلائی ہے ۔ پس جب تک ہمارا علم یہ کہتا ہے ہمیں ان سے ہمدردی ہونی چاہیئے اور ان
کی تکلیف سے تکلیف اور ان کی کامیابی سے خوشی ہوئی چاہیئے۔ پھر نہ معلوم ہمارے بچے
کیوں خوشی سے جرمن خبروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ میں بات کر رہا تھا کہ امۃ الودود مرحومہ
وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں مجھے حیرت ہوئی کہ بات کے درمیان میں یہ کیوں اٹھ گئیں اور
مجھے خیال ہوا کہ شاید اپنے بھائی کے متعلق بات سن کر وہ برداشت نہیں کر سکیں ۔ تھوڑی
ہی دیر کے بعد وہ واپس آئیں اور کہا کہ میں نے بھائی سے کہا ہے کہ جب ابا اس امر کو
پسند نہیں کرتے تو آپ کیوں اس طرح خبریں سنتے ہیں ۔ بھائی نے جواب دیا کہ اگر وہ منع
کریں تو میں کبھی یہ بات نہ کروں ۔ میں نے کہا بی بی منع کرنے کی کیا ضرورت ہے میرے
خیال کا اظہار کیا کافی نہیں ؟ اس پر اس نے کہا کہ میں نے بھائی سے یہی کہا ہے کہ منع
کرنے کا کیوں انتظار کرتے ہو ان کی مرضی معلوم ہونے پر وہی کرو جس طرح وہ کہتے ہیں
(اس کے یہ معنی نہیں کہ عزیزم منصور احمد اطاعت میں کمزور ہے ایسے امور میں لڑکیاں
لڑکوں سے طبعاً زیادہ زکی ہوتی ہیں ورنہ عزیز 
کا معاملہ میری لڑکی سے ایسا عمدہ ہے کہ میرا دل اس سے نہایت خوش ہے اور کبھی
بھی وہ میری لڑکی کے ذریعہ میرے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ میرا دل ان
دونوں کے معاملہ پر مطمئن رہا ہے اور یہ کوئی معمولی نیکی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق سے
ہی ایسے عمل کی توفیق ملتی ہے) میرے دل میں یہ سن کر اپنی اس بچی کی قدر کئی گنے بڑھ
گئی کہ کس طرح اُس نے میری بات سن کر فوراً میرے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کی اور
بات ختم ہونے سے بھی پہلے اس پر عمل کروانے کے لئے دوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں
رحمتیں اس پر ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتا رہے۔
میرزا محمود احمد
اخبار الفضل جلد 28 ۔6 جولائی 1940ء

103۔ یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں