104۔ یہ نور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو

کلام
محمود صفحہ166

104۔ یہ نور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دل
گرمانے کو

یہ نور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دل
گرمانے کو
جو بجلی افق پر چمکی ہے چمکی ہے مرے
تڑپانے کو
یا بزمِ طرب کے خواب نہ تُو دکھلا اپنے
دیوانے کو
یا جام کو حرکت دے لیلیٰ اور چکر دے
پیمانے کو
پھر عقل کا دامن چھٹتا ہے پھر وحشت
جوش میں آتی ہے
جب کہتے ہیں وہ دنیا سے چھیڑو نہ مرے
دیوانے کو
کچھ لوگ وہ ہیں جو ڈھونڈتے ہیں آرام
کو ٹھنڈے سایوں میں
پر ملتی ہے تسکینِ دل جلنے میں ترے
پروانےکو
یہ میری حیات کی الجھن تو ہرروز ہی
بڑھتی جاتی ہے
وہ نازک ہاتھ ہی چاہیے ہٰن اس گتھی
کے سلجھانے کو
عرفان کے رازوں سے جاہل تسلیم کی راہوں
سے غافل
جب آپ بھٹکتے پھرتے ہیں آئے ہیں مرے
سمجھانے کو
اخبار الفضل جلد 32 ۔ 30دسمبر 1944ء

اپنا تبصرہ بھیجیں