156۔ زمیں کا بوجھ وہ سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں

کلام
محمود صفحہ221

156۔ زمیں
کا بوجھ وہ سر پر  اُٹھائے پھرتے ہیں

زمیں کا بوجھ وہ سر پر  اُٹھائے پھرتے ہیں
اک آگ سینہ میں اپنے دبائےپھرتے ہیں
وہ جس نے ہم کو کیا برسرِ جہاں رُسوا
اُسی کی یاد کو دل میں چھپائے پھرتے
ہیں
وہ پھول ہونٹوں سے ان کے جھڑے تھے جو
اک بار
اُنہی کو سینہ سے اپنے لگائے پھرتے
ہیں
ہماری جان تو ہاتھوں میں اس کے ہے لٹو
جدھر بھی جب بھی وہ اس کو پھرائے پھرتے
ہیں
وہ دیکھ لے تو ہر ایک ذرہ پھول بن جائے
وہ موڑے منہ تو سب اپنے پرائے پھرتے
ہیں
خدا تو عرش سے اُترا ہے منہ دکھانے
کو
پر آدمی ہیں کہ بس منہ بنائے پھرتے
ہیں
اخبار الفضل جلد 5 ۔19جولائی 1951ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں