161۔ سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں

کلام
محمود صفحہ226

161۔ سر
پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں

سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
کفرو بدعت سے وہ رغبت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
نہ خدا سے ہے محبت نہ محمدؐ سے ہے
پیار
تم کو وہ دیں سے  عداوت ہے کہ جاتی ہی نہیں
نام اسلام کا ہے کفر کے ہیں کام
تمام
اس پہ پھر ایسی رعونت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
تم نے سوبار مجھے نیچا دکھانا چاہا
پر مرے دل کی مروت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
تم کو مجھ سے ہے عداوت تو مجھے تم
سے ہے پیار
میری یہ کیسی محبت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
ہر مصیبت میں دیا ساتھ تمہارا لیکن
تم کو کچھ ایسی شکایت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
توبہ بھی ہو گئی مقبول حضوری بھی
ہوئی
پر مرے دل کی ندامت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
گالیاں کھائیں،پٹے،خوب ہی رسوا بھی
ہوئے
عشق کی ایسی حلاوت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
کیا ہوا ہاتھ سے اسلام کے نکلی جو
زمیں
دل پہ وہ اس کی حکومت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
وسوسے غیر نے ڈالے ،کئے اپنوں نے
فساد
میری تیری وہ رفاقت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
غیر بھی بیٹھے ہیں اپنے بھی ہیں
گھیرا ڈالے
مجھ میں اور تجھ میں وہ خلوت ہے کہ
جاتی ہی نہیں
پھینکتے رہتے ہیں اعداء میرے کپڑوں
پر گند
تونے دی مجھ کو  وہ نکہت ہے کہ جاتی ہی نہیں
رنج ہو غم ہو کوئی حال ہو خوش رہتا
ہوں
دل میں کچھ ایسی طراوت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
صدیوں سے لوٹ رہا ہے تیری دولت
دجال
دلبرا تیری وہ ثروت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
کفر نے تیرے گرانے کے کئے لاکھ جتن
تیری وہ شان وشوکت ہے کہ جاتی ہی
نہیں
میں تری راہ میں مرمر کے جیا ہوں سوبار
موت سے مجھ کو وہ رغبت ہے کہ جاتی
ہی نہیں
اخبار الفضل جلد 5۔6نومبر  1951ء۔ لاہور
۔ پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں