189۔ بلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج

کلام
محمود صفحہ261-262

189۔ بلا کی آگ برستی ہے
آسماں سے آج

بلا
کی آگ برستی ہے آسماں سے آج
ہیں
تیر چھُٹ رہے تقدیر کی کماں سے آج
اُٹھ
اور اُٹھ کے دکھا زور حُبِ ملت کا
یہ
التجا ہےمری پِیر اور جواں سے آج
وہ
چاہتا ہے کہ ظاہر کرے زمانہ پر
ہمارے
دل کے ارادے اس امتحاں سے آج
جو
دل کو چھید دے جا کر عدوِ مسلم کے
وہ
تیر نکلے الٰہی مری کماں سے آج
خدا
ہماری مدد پر ہے جو کہ ہیں مظلوم
مٹائے
گا وہ عدُو کو مرے جہاں سے آج
جلا
کے چھوڑیں گے اعدائے کینہ پرور کو
نکل
رہے ہیں جو شعلے دلِ تپاں سے آج
ہزار
سال مسلماں نے تجھ کو پالا ہے
یہ
غیظ تجھ میں اُبھر آیا ہے کہاں سے آج
جو
قلبِ مؤمنِ صادق سے اُٹھ رہی ہے دعا
اُتر
رہے ہیں فرشتے بھی کہکشاں سے آج
ہمارے
نیک ارادوں پر اس قدر شبہات؟
خدا
ضرور ہی نپٹے گا بدگماں سے آج
عدُو
یہ چاہتا ہے ہم کو لامکاں کر دے
ہمیں
بھی آئے گی امداد لامکاں سے آج
فرشتے
بھر رہے ہیں اس کو اپنے دامن میں
نکل
رہی ہے دعا جو مری زباں سے آج
پڑے
گی رُوح نئی جسمِ زارِ مسلم میں
وہ
کام ہو گا مرے جسم نیم جاں سے آج
دعائیں
شعلۂ جوالا بن کے اُتریں گی
جلا
کے رکھ دیں گے اعداء کو ہم فغاں سے آج
جیوشِ
ابرہہ کو تہس نہس کر دے گی
اُڑے
گی فوجِ طیور اپنے آشیاں سے آج
شہید
ہوں گے جو اسلام کی حفاظت میں
مُلاقی
ہوں گے وہی اپنے دلستاں سے آج
انہیں
کے نام سے زندہ رہے گا نامِ وطن
گھروں
سے نکلیں گے جو ہاتھ دھو کے جاں سے آج
ہمیں
وہ دامنِ رحمت سے ڈھانپ لیں گے ضرور
بھریں
گے گھر کو ہمارے وہ ارمغاں سے آج
مُشامِ
جان معطر کرے گی جو خوشبو
مہک
رہی ہے وہی میرے بوستاں میں آج
اخبار الفضل جلد 19/54۔ 15ستمبر1965ء ربوہ ۔پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں