30۔آریوں سے خطاب

آریوں سے خطاب
عزیزو! دوستو! بھائیو! سنو
بات
خدا بخشے تمہیں عالی خیالات
ہمیں کچھ کِیں نہیں تم سے پیارو
نہ کِیں کی بات ہے تم خود بچارو
اگر کھینچے کوئی کینے کی تلوار
تو اس سے کب ملے بچھڑا ہوا
یار
غرض پَند و نصیحت ہے نہ کچھ
اور
خدا کے واسطے تم خود کرو غور
کہ گر ایشر نہیں رکھتا یہ طاقت
کہ اک جاں بھی کرے پیدا بقدرت
توپھر اُس پر خدائی کا گماں
کیا
وگر قدرت بھی پھر وہ ناتواں
کیا
کہاں کرتی ہے عقل اس کو گوارا
کہ بِن قدرت ہوا یہ جَگت سارا
وگر تم خالِق اس کو مانتے ہو
تو پھر اب ناتواں کیوں جانتے
ہو
بھلا تم خود کہو انصاف سے صاف
کہ ایشر کے یہی لائق ہیں اوصاف
کہ کر سکتا نہیں اِک جاں کو
پیدا
نہ اِک ذرّہ ہوا اس سے ہَوَیدا
نہ اُن بن چل سکے اس کی خدائی
نہ اُن بِن کر سکے زور آزمائی
نظر سے اس کے ہوں مَحجوب و
َمکتوم
نہ ہو تعداد تک بھی اس کو معلوم
معاذَ اللہ! یہ سب باطِل گماں
ہے
وہ خود ایشر نہیں جو ناتواں
ہے
اگر بھولے رہے اس سے کوئی جاں
تو پھر ہو جاوے اس کا ملک ویراں
پیارو! یہ روا ہر گز نہیں ہے
خدا وہ ہے جو ربّ العالمیں
ہے
یہ ایسی بات منہ سے مت نکالو
خطا کرتے ہو ہوش اپنے سنبھالو
اگر ہر ذرّہ اُس بِن خود عیاں
ہو
تو ہر ذرے کا وہ مالک کہاں
ہو
اگر خالق نہیں روحوں کی وہ
ذات
تو پھر کاہے کی ہے قادر وہ
ہیہات
خدا پر عجز و نقصاں کب روا
ہے
اگر ہے دیں یہی پھر کُفر کیا
ہے؟
اگر اُس بِن بھی ہو سکتی ہیں
اشیاء
تو پھر اُس ذات کی حاجت رہی
کیا؟
اگر سب شئے نہیں اُس نے بنائی
تو بس پھر ہو چکی اُس سے خدائی
اگر اُس میں بنانے کا نہیں
زور
تو پھر اتنا خدائی کا ہے کیوں
شور
وہ نا کامِل خدا ہو گا کہاں
سے
کہ عاجز ہو بنانے جسم و جاں
سے
ذرا سوچو کہ وہ کیسا خدا ہے
کہ جس سے جَگت روحوں کا جدا
ہے
سَدا رہتا ہے اُن روحوں کا
محتاج
اُنہیں سب کے سہارے پر کرے
راج
جسے حاجت رہے غیروں کی دن رات
بھلا اُس کو خدا کہنا ہی کیا
بات
جب اُس نے اُن کی گنتی بھی
نہ جانی
کہاں مَن مَن کا ہو انتر گیانی
اگر آگے کو پیدائش ہے سب بند
تو پھر سوچو ذرا ہو کے خِرد
مند
کہ جس دم پا گئی مُکتی ہر اک
جاں
تو پھر کیا رہ گیا ایشر کا
ساماں
کہاں سے لائے گا وہ دوسری روح
کہ تا قدرت کا ہو پھر باب مفتوح
غرض جب سب نے اس مُکتی کو پایا
تو ایشر کی ہوئی سب خَتم مایا
تناسخ اُڑ گیا آئی قیامت
کرو کچھ فکر اب حضرت سلامت
عزیزو کچھ نہیں اس بات میں
جاں
اگر کچھ ہے تو دکھلاؤ بہ میداں
بہت ہم نے بھی اس میں زور مارا
خَیالستاں کو جانچا ہے سارا
مگر ملتی نہیں کوئی بھی بُرہاں
بھلا سچ کس طرح ہو جائے بُہتاں
نہ ہو گا کوئی ایسا مت زمیں
پر
کہ یہ باتیں کہے جاں آفریں
پر
دعا کرتے رہو ہر دم پیارو
ہدایت کے لیے حق کو پکارو
دعا کرنا عجب نعمت ہے پیارے
دعا سے آ لگے کشتی کنارے
اگر اس نخل کو طالِب لگائے
تو اک دن ہو رہے برتھا نہ جائے
ہمارا کام تھا وعظ و منادی
سو ہم سب کر چکے واللہ ہادی
الراقم مرزا
غلام احمد رئیس قادیان
الثامن من الشہر المبارک المحرم بارکہ اللہ لجمیع المومنین 1295ہجری المقدس  علی صاحبہ الصلوٰۃ و السلام
(منشور محمدی بنگلور 1875مطابق 15ربیع الثانی 1295ء)
(الحکم جلد 7 ۔28مئی 1942ء و الفضل 18جنوری 1963ء)

اپنا تبصرہ بھیجیں