219۔ آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ219۔220

219۔ آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو

آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ
ہو
آپ کا لب سرکار کہیں عیّار نہ ہو
تیرِ نظر کے گھائل کیونکر قائل ہوں
جب تک تیر نظر کا دل کے پار نہ ہو
چاند کھڑا ہے مُدّت سے دروازے میں
چہرہ بھی پیلا سا ہے، بیمار نہ ہو
وہ اس جنگ میں لڑنے کے لیے مت نکلیں
جن کے پاس محبت کی تلوار نہ ہو
کوئے ملامت میں جانے سے ڈرتا ہے
دل دیوانہ اتنا بھی ہُشیار نہ ہو
منگتا مانگتا جائے اپنے داتا سے
داتا کو بھی دینے سے انکار نہ ہو
سورج چاند ستارے سب گہنا جائیں
آخرِ شب وہ آنکھ اگر بیدار نہ ہو
مانگ تو لوں اس زُلف سے سایہ تھوڑا
سا
کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انکار نہ ہو
عشق اگر ہو عشق تو کیونکر ممکن ہے
عشق تو ہو لیکن اس کا اظہار نہ ہو
سر کے بل جاؤں اس پھول سے ملنے کو
راہ میں خوشبو کی رنگیں دیوار نہ ہو
ڈرتا ہوں مَیں یار کی طبعِ نازک پر
پیار کا یہ اظہار بھی مضطرؔ! بار نہ
ہو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں