212۔کفر کا الزام میرے نام تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ 312

212۔کفر کا الزام میرے نام تھا

کفر
کا الزام میرے نام تھا
کون
کہتا ہے کہ مَیں ناکام تھا
کوئے
جاناں اور جاں کے درمیاں
فاصلہ
تھا بھی تو یک دو گام تھا
جانے
کیوں خاموش تھے چھوٹے بڑے
گفتگو
کا یوں تو اذنِ عام تھا
اب
لیے پھرتا ہوں اپنے آپ کو
مجھ
کو سولی پر بہت آرام تھا
سائے
لمبے ہو رہے تھے شہر کے
تھک
گئے تھے پیڑ، وقتِ شام تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں