
174۔ صلح ہو گی نہ لڑائی ہو گی
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ264
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ264
174۔ صلح
ہو گی نہ لڑائی ہو گی
صلح
ہو گی نہ لڑائی ہو گی
ہو گی نہ لڑائی ہو گی
وصل
در وصل جدائی ہو گی
در وصل جدائی ہو گی
اشک
میں اشک پروئے ہوں گے
میں اشک پروئے ہوں گے
آگ
سے آگ بجھائی ہو گی
سے آگ بجھائی ہو گی
ہم
کو بے چین بنا کر پیارے!
کو بے چین بنا کر پیارے!
تجھ
کو بھی نیند نہ آئی ہو گی
کو بھی نیند نہ آئی ہو گی
عشق
بدنام ہے اوّل دن سے
بدنام ہے اوّل دن سے
کوئی
تو اس میں برائی ہو گی
تو اس میں برائی ہو گی
ہم
فقیروں میں بھی آ کر بیٹھو
فقیروں میں بھی آ کر بیٹھو
بوریا
ہو گا، چٹائی ہو گی
ہو گا، چٹائی ہو گی
حشر
کے روز بقولِ غالبؔ
کے روز بقولِ غالبؔ
”کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی”
اک
طرف ہو گا وہ جانِ خوبی
طرف ہو گا وہ جانِ خوبی
اک
طرف ساری خدائی ہو گی
طرف ساری خدائی ہو گی
پھر
گیا جانبِ صحرا مضطرؔ
گیا جانبِ صحرا مضطرؔ
پھر
کوئی جی میں سمائی ہو گی
کوئی جی میں سمائی ہو گی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی