82۔ نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ141۔142

82۔ نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے

نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے
مگر دل ہے کہ اس کو جانتا ہے
یہ کیسی صبح کا چرچا ہؤا ہے
اندھیرے میں نظر آنے لگا ہے
میں اپنے سامنے ہوں بھی، نہیں  بھی
نظارہ آئنہ در آئنہ ہے
یونہی ُبھولے سے آ جاؤ کسی دن
کہ اس گھر کا تو دروازہ کھلا ہے
کوئی آہٹ تو آئی ہے قفس میں
کہیں  اُمّید کا پردہ ہلا ہے
لرز اُٹھّا ہے آدھی رات کا دل
اندھیرے میں کوئی آنسو گرا ہے
خدا رکھّے سلامت تجھ کو قاتل!
کہ تُو اپنا پرانا آشنا ہے
اندھیرا صبح کو جھٹلا رہا تھا
اسے بھی اب یقیں آنے لگا ہے
ہمہ تن گوش ہے ساری خدائی
پسِ پردہ کوئی تو بولتا ہے
کھڑا ہوں دم بخود ان کی گلی میں
بڑی مدّت کے بعد آنا ہؤا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں