75۔ کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ129۔130

75۔ کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے

کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے
شہرِ مسحور میں کوئی تو شناسا نکلے
رات دن جس کو برا کہتی ہیں تیری آنکھیں
کیا عجب ہے وہ برا شخص بھی اچھّا نکلے
شہر میں دھوم تھی اس شوخ کی عیاری کی
دیکھیے! دشت میں آیا ہے تو کیسا نکلے
ہم نے مانا کہ بہت سادہ و پرکار تھا
وہ
چاہنے والے تو کچھ اور بھی سادہ نکلے
شہرِ مسحور میں جاؤ تو خبردار رہو
کہیں ایسا نہ ہو سایہ بھی نہ سایہ نکلے
دیکھنے والوں کی آنکھیں نہ کہیں تھک
جائیں
پردۂ غیب سے جب تک ترا چہرہ نکلے
دو قدم اور سہی اے تھکے ماندے راہی!
کیا عجب ہے کہ یہیں سے کو ئی رستہ نکلے
اس کے آنے کی خبر سنتے ہی بچّے بوڑھے
اپنی پلکوں پہ لیے دل کا تقاضا نکلے
آبلے پاؤں کے واقف تھے پرانے لیکن
روح کے روگ بھی کانٹوں کے شناسا نکلے
تُو کبھی پی تو سہی اشکِ ندامت چھپ
کر
عین ممکن ہے کہ یہ زہر گوارا نکلے
تم بھی آ جانا ملاقات کی خاطر مضطرؔ!
جب سرِ دار مقدّر کا ستارہ نکلے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں