63۔ دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ101۔102
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ101۔102
63۔
دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا
دینے لگے
دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے
جس قدر مانگا تھا اس سے کچھ سوا دینے
لگے
لگے
جاں کا غم،جاناں کا غم،دنیا کا غم،عقبیٰ
کاغم
کاغم
کیا نہیں دیتا ہے جب میرا خدا دینے
لگے
لگے
شاعری چھوڑو، قلم توڑو، کرو ترکِ وطن
ہم کو یہ احباب مل کر مشورہ دینے لگے
چاند بھی کھڑکی کے رستے آ گیا دالان
میں
میں
آہٹوں کو گھر کے آئینے صدا دینے لگے
پھول تھا تو پھول کے جذبات کا رکھتے
خیال
خیال
تم اسے گلدان میں رکھ کر بھلا دینے
لگے
لگے
جیتے جی کوئی کسی کا پوچھنے والا نہ
تھا
تھا
مر گئے تو اپنے بیگانے دعا دینے لگے
ہاتھ رنگیں کر لیے پہلے ہمارے خون سے
پھر اِنھی ہاتھوں سے ہم کو خوں بہا
دینے لگے
دینے لگے
ساحلوں کے تشنہ لب بارش کی پہلی بوند
کو
کو
دیکھتی آنکھوں سمندر میں گرا دینے
لگے
لگے
راستوں کے بے تکے پن کا نہیں کوئی علاج
دشت میں جا کر حوالہ شہر کا دینے لگے
قافیوں سے لڑ پڑے تو پھاڑ دی ساری غزل
جرم دیواروں کا تھا، گھر کو سزا دینے
لگے
لگے
ہجر کے بیمار کو مضطرؔ! قرار آ ہی
گیا
گیا
زخم پھر بھی زخم تھے، آخر مزا دینے
لگے
لگے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی