8۔ اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ15۔16

اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے

اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے
ڈھل گئے آفتاب چہروں کے
ہم سے پوچھو عذاب چہروں کے
ہم بھی تھے ہمرکاب چہروں کے
ہم ہیں قاری صحیفۂ رخ کے
ہم ہیں اہلِ کتاب چہروں کے
ہم نے دیکھے ہیں جاگتی آنکھوں
خواب در خواب خواب چہروں کے
ذہن کے پار تک ہیں پھیلے ہوئے
سلسلے بے حساب چہروں کے
ہو گئے لقمۂ نہنگِ نظر
کیسے کیسے گلاب چہروں کے
شیخ پکڑے گئے سرِ بازار
منتظر تھے جناب چہروں کے
رنگ لا کر رہیں گے بالآخر
یہ سوال و جواب چہروں کے
بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی
دیکھ کر اضطراب چہروں کے
ان کو آزردہ دیکھ کر مضطرؔ!
رنگ بدلے شتاب چہروں کے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں