425۔ کیا ہمیں آپ بھی سرکار نہیں چاہتے ہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ620

425۔ کیا ہمیں آپ بھی سرکار نہیں چاہتے ہیں

 

کیا ہمیں آپ بھی سرکار نہیں چاہتے ہیں

یا فقط مفتیء دربار نہیں چاہتے ہیں

 

شام ہونے کو ہے اور منزلِ مقصود ہے دور

عشرتِ سایۂ دیوار نہیں چاہتے ہیں

 

گھپ اندھیرا ہے مگر عقل کے اندھے اب بھی

جانے کیوں صبح کے آثار نہیں چاہتے ہیں

 

آپ کے دل میں ہے جو بات وہی تو ہے بات

آپ جس بات کا اقرار نہیں چاہتے ہیں

 

کس لئے عشق کے اظہار سے خائف ہیں آپ

آپ کیوں عشق کا اظہار نہیں چاہتے ہیں

 

دعوٰیِ عشق اگر سچا ہے پھر کیوں احباب

رقصِ بسمل سرِبازار نہیں چاہتے ہیں

 

لذتِ درد میں مضطرؔ نہ افاقہ ہو جائے

یہ دوا شہر کے بیمار نہیں چاہتے ہیں

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں