5۔ مصروف ہے سینوں میں اک آذرِ پوشیدہ

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ9۔10

مصروف ہے سینوں میں اک آذرِ پوشیدہ

مصروف ہے سینوں میں اک آذرِ پوشیدہ
کچھ بت ہیں تراشیدہ، کچھ غیر تراشیدہ
ان عقل کے اندھوں کو اللّٰہ ہدایت دے
جو کام کیا الٹا، جو بات کی پیچیدہ
ڈر ہے تو یہی ان کو، بیدار نہ ہو جائے
مخلوق خدا کی جو مدّت سے ہے خوابیدہ
ق
اس حسنِ مجسّم نے مسحور کیا سب کو
اپنے بھی غلام اس کے، بیگانے بھی گرویدہ
اس جانِ تمنّا کو، اس غیرتِ محفل کو
چاہا بھی تو درپردہ، دیکھا بھی تو دزدیدہ
تعریف سے بالا ہے، توصیف سے مستغنی
ہر بات حسیں اس کی، ہر کام پسندیدہ
تھا شور بپا اتنا کل بزمِ نگاراں میں
جب ذکر چھڑا اس کا سب ہو گئے سنجیدہ
ان سرخ ستاروں کو پلکوں میں پِرو لیں
گے
سجدوں میں سمو لیں گے ہم اے دلِ شوریدہ!
ہم پہ جو گزرتی ہے معلوم ہے سب اس کو
حالات ہمارے تو اس سے نہیں پوشیدہ
پوچھیں تو دکھا دینا جو داغ ہیں فرقت
کے
یا پڑھ کے سنا دینا مکتوبِ دل و دیدہ
ہم بھی کبھی جائیں گے دربارِ محبت میں
ترسیدہ و لرزیدہ، غلطیدہ و لغزیدہ
با ایں ہمہ دلداری، با ایں ہمہ ستّاری
مضطرؔ! وہ کہیں تم سے ہو جائیں نہ رنجیدہ
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں