180۔ آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ147

180۔ آنکھ
سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

آنکھ
سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے
والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
خواب
سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو
زندگی
بھر کوئی اب خواب ہی دوہرائے گا
ٹوٹ
جائیں نہ کہیں پیار کے نازک رشتے
وقت
ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا
عشق
کو جرم سمجھتے ہیں زمانے والے
جو
یہاں پیار کرے گا وہ سزا پائے گا
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں