177۔ میں زندہ ہوں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ143۔144

177۔ میں
زندہ ہوں

میں
زندہ ہوں
آخری
رات تھی وہ
میں
نے دل سے یہ کہا
حرف
جو لکھے گئے
اور
جو زباں بولی گئی
سبھی
بیکار گئے
میں
بھی اب ہار گیایار بھی سب ہار گئے
کوئی
چارہ نہیں جزترکِ تعلق اے دل
اک
صدا اور سہی آخری بار
جسم
سے چھیڑاُسے روح سے چھو لے اُسے
آخری
بار بہے سازِ بدن سے کوئی نغمہ کوئی لَے
آخری
رات ہے یہ
آخری
بار ہے یہ ذائقہ ء بوسہ و لمس
آخری
بار چھلک جائے لہو
گرمئ
جاں  سےمہک جائے نفس کی خوشبو
خواب
میں خواب کے مانند اُترجااے دل
آخری
رات تھی وہ
پھر
گزر کوئے ندامت سے ہوا تو دیکھا
بام
روشن ہے جو تھا
اور
دروازے پہ دستک ہے وہی
میرا
قاتل درودیوار پہ کچھ نقش بناتا ہے ابھی
انگلیاں
خون سے تر،دلِ کم ظرف کو ہے واہمۂ عرض ِ ہنر
دن
کی ہر بات ہوئی بے توقیر
رات
ہےاور بے ضمیر
چشم
ہے منتظرِخواب دگر
خواب
آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں
اور
قاتل کی سزا یہ بھی کہ میں زندہ ہوں
1970ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں