
140۔ عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے
یہ
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ77۔78
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ77۔78
140۔ عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر
سے گئے
عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے
گئے
گئے
وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے
گئے
گئے
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے
گئے
گئے
بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا
یہی
یہی
کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے
گئے
گئے
ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے
کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام
اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر
سے گئے
سے گئے
یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں
کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے
مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے
مجھ میں
مجھ میں
مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے
گئے
گئے
جو زخم، زخم ِ زباں بھی ہے اور نمو
بھی ہے
بھی ہے
تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے
گئے
گئے
1969ء
عبید اللہ علیم ؔ