القرآن ۔ الشعراء 225-228

تبرکات – القرآن
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ
الْغَاوُونَ
۝ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ۝ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا
لَا يَفْعَلُونَ
۝ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا
اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا
أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ 
۝
اور
رہے شعراء تو محض بھٹکے ہوئے ہى اُن کى پىروى کرتے ہىں  
۞ کىا
تو نے نہىں دىکھا کہ وہ ہر وادى مىں سرگرداں رہتے ہىں  
۞ اور
ىقىناً وہ کہتے وہ ہىں جو کرتے نہىں  
۞   سوائے
اُن کے جو (اُن مىں سے) اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو
ىاد کىا اور ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اس کا بدلہ لىا اور وہ جنہوں نے ظلم کىا
عنقرىب جان لىں گے کہ وہ کس لَوٹنے کے مقام پر لَوٹ جائىں گے ۔
 (الشعراء 225-228)
حضرت
خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ان آیات کی تفسیر میں  فرماتے ہیں کہ
"پھر
فرماتاہے
 إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا
اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا
۔ہاں ان
شاعر وں کو ہم مستثنٰی کرتے ہیں جومومن ہیں اورمناسب حال عمل کرتے ہیں ۔وہ اگرشعر
کہتے ہیں توان کاشعرحقیقت پرمبنی ہوتاہے اوروہ وہی شعر کہتے ہیں جو عملی زندگی میں
ان کے اندرپایاجاتاہے ۔اس کی مثال کے طورپر ہم حضرت حسان بن ثابتؓ کے وہ اشعار پیش
کرتے ہیں جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرکہے ۔جب انہیں معلوم
ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں توانہوں نے اپنے درد اورکرب کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِر
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ
فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِر
یعنی
اے محمد رسول اللہؐ! تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں
اندھی ہوگئیں ۔ا ب خواہ کو ئی مرے ۔میراباپ مرے ۔میری ماں مرے۔بیوی مرے ۔بھائی
مرے۔بیٹامرے۔مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں مَیں تو تیری موت سے ہی
ڈراکرتاتھا ۔حضر ت حسان بن ثابتؓ جنہوں نے یہ شعرکہے ۔وہ خو د بھی نیک تھے اور ان
کے یہ اشعار بھی حقیقت پر مبنی تھے ۔پس یقینا ایسے لوگ پہلے گروہ میں شامل نہیں۔
پھر
فرمایا ۔ان کی عادت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کثرت سے ذکرکرتے
ہیں ۔اورغیر مومن شاعر وں کی طرح صرف منہ سے یہ نہیں کہتے رہتے کہ ہم اپنے محبوب
کے لئے یہ قربانیاں کریں گے بلکہ جب دین کے بار ہ میں ان پر ظلم کیاجاتاہے تووہ
عملاً اس کا بدلہ لیتے ہیں اورثابت کردیتے ہیں کہ جس فدائیت کا انہوں نے اپنے
شعروں میں ذکر کیاتھا عملاً بھی وہ فدائیت ان کے اند ر پائی جاتی ہے۔مگراس کے ساتھ
ہی ان کایہ رویہ نہیں ہوتاکہ وہ اپنے مخالف پر ظلم کریں بلکہ وہ ہمیشہ ظلم کے بعد
بدلہ لیتے ہیں اورکسی دوسرے پر ظلم نہیں کرتے "
(تفسیر
کبیرجلد 7 صفحہ 304-305)

اپنا تبصرہ بھیجیں