190۔ ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے

کلام
محمود صفحہ263

190۔ ایک
دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے

یہ نظم بہت پرانی ہے۔ غالباً 1924 ء کے لگ بھگ کی۔ کھو گئی تھی۔ صرف حضوررضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو مطلع یاد رہ گیا تھا اور حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1946 ء میں
دوبارہ اس مطلع پر نظم کہی تھی جو 9نومبر1951ء کے "الفضل "میں شائع ہوئی۔
اب کاغذات دیکھتے ہوئے پہلی نظم حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی
مل گئی ہے جو ذیل میں شائع کی جا رہی ہے۔
(مریم صدیقہ)
ایک
دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے
ٹھیس
لگ جائے ذرا سی تو صدا کرتا ہے
مَیں
نے پوچھا جو ہو کیوں چُپ تو تنک  کر بولے
ہم
بھرے بیٹھے ہیں جانے بھی دے کیا کرتا ہے
دوستی
اور وفاداری ہے سب عیش کے وقت
آڑے
وقتوں میں بھلا کون وفا کرتا ہے
چلتے
کاموں میں مدد دینے کو سب حاضر ہیں
جب
بگڑ جائیں فقط ایک خدا کرتا ہے
کیا
بتاؤں تجھے کیا باعثِ خاموشی ہے
میرے
سینہ میں یونہی درد ہوا کرتا ہے
مَیں
تو بیداری میں رکھتا ہوں سنبھالے دل کو
جب
میں سو جاؤں تو یہ آہ و بُکا کرتا ہے
تم
نے بھی آگ بجھائی نہ کبھی آ کے مری
میری
آنکھوں سے مرا دل یہ گلہ کرتا ہے
درد
تو اور ہی کرتا ہے تقاضا دل سے
پر
وہ اظہارِ محبت سے دبا کرتا ہے
ہجر
میں زیست مجھے موت نظر آتی ہے
کوئی
ایسا بھی ہے  عاشق جو جیا کرتا ہے
بیٹھ
جاتا ہوں وہیں تھام کے اپنے سر کو
جب
کبھی دل میں مرے درد اٹھا کرتا ہے
اخبار الفضل جلد 20/55۔ 26 مارچ
1966ء

اپنا تبصرہ بھیجیں